ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
علمائے لکھنؤ کے سامنے بیان کی تو وہ عش عش کر اٹھے کہ اﷲ تعالیٰ اتنے پیارے ہیں کہ ان کے راستہ کے قید خانے، جانِ یوسف علیہ السلام کو زیادہ محبوب ہیں۔ بنگلہ دیش میں بھی جب میں نے یہ بات پیش کی تو ایک عالم نے مجھ سے پوچھا کہ اس آیت میںیَدْعُونَ تو جمع ہے حالاں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنی طرف بلانے والی صرف زلیخا تھی تو یَدْعُوْنَ جمع کیوں نازل ہوا ؟ میں نے کہا کہ یہ جمع ایسا ہے کہ یہ جمع مذکر بھی ہے اور جمع مؤنث بھی ہے، اس کی گردان ہے یَدْعُوْ، یَدْعُوَانِ، یَدْعُوْنَ ، تَدْعُوْ، تَدْعُوَانِ ،یَدْعُوْنَ،یہ مذکر بھی استعمال ہوتا ہے اور مؤنث بھی استعمال ہوتا ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ بلانے والی تو ایک تھی پھر اﷲ تعالیٰ نے جمع کیوں نازل کیا؟ میں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ مصر کی عورتوں نے سفارش کی تھی، گناہ پر سفارش کرنا اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا اصل جرم ہے، اس لیے اﷲ نے جمع میں مصر کی عورتوں کو بھی شامل کر لیا، بتاؤ! کتنا بڑا امتحان تھا میرا۔ لوگ کہتے کہ یہ پیر ایسا ہی ہے اور قواعد وغیرہ کچھ نہیں جانتا۔ بنگلہ دیش میں جب میں نے جواب دیا تو سب عش عش کر اُٹھے کہ بھئی یہ پیر تو ایسا ہے کہ قواعد وغیرہ سے بھی واقف ہے، اﷲ تعالیٰ نے میری آبرو رکھ لی۔ اب قلب کی صفائی کا مرحلہ ہے، آنکھ کو تو کوئی دیکھ سکتا ہے کہ فلاں بدنگاہی کر رہا ہے، مگر دل میں گندے خیالات کوئی پکائے تو کسی کو خبر نہیں ہے کہ یہ صوفی ہے یا کوفی ہے، اس لیے : یَعۡلَمُ خَآئِنَۃَ الۡاَعۡیُنِ وَ مَا تُخۡفِی الصُّدُوۡرُ؎ اﷲ تعالیٰ آنکھوں کی چوریوں سے باخبر ہے اور جو کچھ تمہارے سینے چھپاتے ہیں اس سے بھی واقف ہے، صدور سے مراد قلوب ہیں تَسْمِیَۃُ الْمَحَلِّ بِاِسْمِ الْحَالِیہ مجاز مرسل ہے، مجاز مرسل کیوں استعمال کیا؟ یہ کلام اﷲ کی بلاغت ہے۔ تو نظر کی حفاظت کے بعد دوسرا عمل یہ ہے کہ گندے خیالوں سے دل کو بھی محفوظ رکھیے، تیسرا اہتمام یہ ہے کہ ٹخنہ کھولیے، کبھی نہ چھپائیے، ٹخنہ چھپانا حرام ہے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: ------------------------------