ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
کی حدیث بیان کردی۔ اﷲ کی لعنت کے باوجود کوئی ولی کیسے ہوسکتا ہے، جس کی زندگی لعنتی ہو وہ رحمتی زندگی پاسکتا ہے؟ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِّالسُّوْٓءِ نفس بہت شریر ہے، ہر برے کام کی طرف توجہ دلاتا ہے، اِلَّا مَارَحِمَ رَبِّیْیہاںمَا ظرفیہ، زمانیہ، مصدریہ ہے، کیا مطلب؟ اَیْ فِیْ وَقْتِ رَحْمَۃِ رَبِّیْ جس وقت تمہارے اوپر رحمتِ رب کا سایہ ہوگا فِیْ کیا ہے؟ ظرفیت، اور وقت کیا ہے؟ ز مانیہ اور رحم ماضی تھا، رحمت مصدر ہے، اَیْ فِیْ وَقْتِ رَحْمَۃِ رَبِّیْ جب تک تمہارے رب کی رحمت رہے گی تم نفس کے شر سے محفوظ رہوگے، اب بتاؤ! جس پر بدنظری کے وقت اﷲ کی لعنت برس رہی ہو، اس نے لعنتی چادر اوڑھ لی ہو، اﷲ کی لعنت اختیار کرلی ہو، اﷲ کی رحمت کا سایہ اس پر سے اُٹھ گیا ہو تو اب وہ نفسِ امارہ کی گود میں ہوگا۔ قرآن قصہ کہانی کی کتاب نہیں ہے، ہدایت کی کتاب ہے۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام کو زلیخا نے اپنے محل میں بلاکر سارے دروازوں پر تالے لگا دیے اور برائی کی دعوت دی تو اﷲ تعالیٰ نے حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام کو یہ ہدایت نہیں فرمائی کہ زلیخا کے پاس کھڑے رہ کر دعا کرو، فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللہِ؎ وہاں سے بھاگو، حضرت یوسف علیہ السلام وہاں سے بھاگے، جائے فرار پر جائے قرار نہیں ہے، وہاں دعا بھی قبول نہیں ہے، جہاں سے بھاگنے کا حکم ہے وہاں بیٹھ کر دعا مانگی تو آپ نافرمان ہوں گے کہ فرار کے بجائے وہاں قرار کیا، لہٰذا حضرت یوسف علیہ السلام زلیخا کے پاس سے فوراً بھاگے اور بھاگتے ہوئے جس دروازہ کے پاس جاتے اس کا تالا ٹوٹ کر گر جاتا۔ جب سب تالے کھل گئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا کی کہ رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَیۡہِ؎اے میرے رب! مجھے آپ کے راستہ کا قید خانہ اَحَبّْ ہے اس چیز سے جس طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں۔ تو جو اﷲ اتنا پیارا ہو کہ جس کی راہ کا قیدخانہ اَحَب ہوتا ہے تو اس کی راہ کے گلستان کیسے ہوں گے؟ جب میں نے یہ بات ------------------------------