ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
سانس پھول رہی ہے، اٹھوگے توگروگے تو کمزور کی معافی کی قدر نہیں ہوتی، اس لیے اﷲ تعالیٰ نے وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ میں عزیزکو مقدم فرمایا کہ تم سمجھ لو کہ تمہیں بہت بڑی طاقت والی ذات سے معافی مل رہی ہے، عزیز کے معنیٰ ہیں اَلْقَادِرُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ جو قدرت رکھتی ہے ہر شے کی وَلَا یُعْجِزُہٗ شَیْ ءٌ فِیْ اِسْتِعْمَالِ قُدْرَتِہٖ اس کو قدرت کے استعمال میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔ اﷲ تعالیٰ نے ایک حکم اور بھی دیا ہے، ویسے تو بہت سے احکام ہیں مگر ایک وقت میں ایک ماحول میں جب کسی جگہ کسی مرض کی زیادتی ہوتی ہے تو سب سے پہلے اسی کا علاج کیا جاتا ہے، اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ اے محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم!آپ مومنین سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں۔ اﷲ تعالیٰ نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو رابطہ کیوں بنایا؟ نگاہوں کی حفاظت کا حکم براہِ راست کیوں نہیں دیا جبکہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ نماز اور زکوٰۃ کے احکامات بر اہِ راست دیے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بندوں کو معلوم ہوجائے کہ نظر بازی اتنا خبیث عمل ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو براہِ راست حکم دیتے ہوئے حیا آئی اور اپنے نبی کو واسطہ بنانا پڑا کہ اے ہمارے نبی! آپ مومنین سے فرمادیجیے کہ اس خبیث عمل سے بچیں اور اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں۔ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ میں من تبعیضیہ ہے، ہر نگاہ بچانا مراد نہیں ہے، آسمان و زمین دیکھو ، اپنے ماں باپ کو دیکھو، بیوی کو عشاء سے لے کر فجر تک دیکھو،مگر یہ دیکھنا جائز نہیں ہوگا، کیوں کہ رات بھر جاگنے سے تو صحت خراب ہوجائے گی، مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے حیا اگر نہ آئے تو رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے حیا کرو، رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجسم تمہارے آنکھوں کے سامنے ہیں اور ان سے محبت طبعی بات ہے۔ رسولِ خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے محبت طبعی بات ہے تو اے ہمارے نبی! آپ مومنین سے فرمادیجیے کہ اپنی آنکھوں کو بچائیں اور یَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْاور اپنی