ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
لیے کہتا ہوں کہ اگر ذلت سے بچنا چاہتے ہو تو خانقاہوں میں کچھ وقت لگا کر اﷲ کا نام لینا سیکھ لو، اﷲ کے نام کے صدقہ اپنی حرام آرزوؤں کا خون کرنا سیکھ لو، نفس کی اصلاح کرالو تو پھر کیا ملے گا؟ اسی کو شاعر کہتا ہے ؎ میکدہ میں نہ خانقاہ میں ہے جو تجلی دلِ تباہ میں ہے دل کی آرزو کا خون کر دو، دل تباہ ہوجائے بس اﷲ مل جائے گا، جو حسین صورتیں ہیں اگر ہم ان سے نظر بچا لیں تو یہی ہم کو واصل باللہ کرتی ہیں، یہ حسین ایسے ہی تھوڑی پیدا کیے ہیں، یہ ہماری تکمیل کے لیے ہیں، ان سے نظر بچاؤ، حلوۂ ایمانی کھاؤ، اس لیے ان حسینوں کا وجود ضروری ہے، مگر ان کی طرف التفات نہ کرو، یہ مولوی کو مولانا بنانے والی ہیں، مولائے روم بنانے والی ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ ان سے نظر بچاؤ، چاہے جان نکل جائے، مگر جان نہیں نکلے گی بلکہ سینکڑوں جانیں عطا ہوں گی ؎ نیم جاں بستاند و صد جاں دہد اُنچہ در و ہمت نیاید آں دہد آدھی جان لے کر وہ سو جان دے دیتے ہیں، جو رحمت اﷲ دیتا ہے وہ وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی، نظر کی حفاظت سے دل میں رحمت کی بارش کرتا ہے، اسی کا نام حلوۂ ایمانی ہے، یَجِدُ فِیْ قَلْبِہٖ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَانِ نظر بچانے والا اپنے دل میں پا جائے گا یعنی وہ واجد ہوگا اور اﷲ اس کے دل میں موجود ہوگا، یہ تصورات نہیں ہیں وحی الٰہی ہے جو غلط نہیں ہوسکتی۔ نظر بچانے والا دل میں حلاوتِ ایمانی کا واجد ہوتا ہے اور حلاوتِ ایمانی اس کے دل میں موجود ہوتی ہے یعنی یہ اﷲ کا واجد ہوتا ہے اور اﷲ اس کے دل میں موجود ہوتا ہے۔ اور جو شخص اﷲ کا نام لیتا ہے اور نگاہوں کی حفاظت بھی کرتا ہے لیکن کبھی کبھی پھسل جاتا ہے اور نگاہ خراب کرلیتا ہے تو گناہوں کے ساتھ اﷲ کے نام کا مزہ ایسا ہے جیسے خاک آلود پانی ؎