ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
میں بدفعلی سے بچنے کے لیے ایک مراقبہ بتاتا ہوں کہ تصور کرو کہ بچہ کی پیدایش کے بعد گندا خون نکل رہا ہے، اس کو نرسیں بالٹی بھر بھر کے پھینک رہی ہیں اور ایک انچ کا قطر ایک فٹ کے برابر ہوگیا، جب بچہ نکلتا ہے تو کیسے نکلتا ہے؟ اس وقت میں اگر اس عورت کے ساتھ صحبت کرنا چاہو تو کیا ہوگا؟ کنویں میں چڑیا گر جائے گی، کر ہی نہیں سکتے، مفت کیا اگر ایک لاکھ روپیہ بھی کوئی دے کہ اس عورت کے ساتھ صحبت کر لو تو نہیں کرسکتے، ایسی گندی چیز کے لیے اپنے اﷲ کو ناراض کرنا کیا حماقت ہے۔ اسی طرح پائخانہ کے مقام میں گھسنا اور بھی ذلیل اور خبیث کام ہے۔ عورت نکاح کے بعد حلال ہوسکتی ہے لیکن مرد تو کسی وقت حلال نہیں ہوسکتا، وہ معشوق بھی گالیاں دیتا ہے، چاہے اس وقت نہ دے، لیکن جب عمر زیادہ ہوجائے گی تو بد فعلی کرنے والے کے ساتھ کبھی نہیں ملتا اور اگر اس کو دیکھتا بھی ہے تو ماں کی گالی دیتا ہے کہ اس کمبخت نے مجھ کو ذلیل کیا، اس پر ہزار لعنت بھیجتا ہے، کیا بتاؤں، گناہ میں نقصان کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ہے، کوئی ایک فائدہ بھی ثابت نہیں کر سکتا مگر افسوس ہے اُن لوگوں پر جو انجام بینی سے محروم ہیں۔ جب شہوت کا بھوت سوار ہوتا ہے تو وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ لڑکے ہمیشہ لڑکے تھوڑی رہتے ہیں، وہ شیخ الحدیث بھی بنتے ہیں، ڈاکٹر بھی بنتے ہیں، تھانہ دار بھی بنتے ہیں۔ اس کے متعلق ایک فیچر سنیے، بہت ہی دلچسپ ہے، ایک آدمی پیٹا گیا تو رَپَٹ لکھوانے تھانہ میں گیا۔ اس نے جو تھانہ دار صاحب کو دیکھا تو اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی کیوں کہ تھانہ دار صاحب بچپن میں اس کے مفعول رہ چکے تھے۔ اسے دیکھتے ہی تھانہ دار صاحب نے پولیس والوں سے کہا کہ پکڑو اس نالائق کو، اس نے بچپن میں ہم کو ذلیل کیا تھا تو پولیس نے پکڑ کر خوب پٹائی کی۔ وہاں سے مار کھا کے بھاگے اور زکوٰۃ کمیٹی کے چیئر مین کے پاس گئے تو وہ بھی ان کا مفعول نکلا۔ اس نے دیکھتے ہی مجسٹریٹ کو فون کیا کہ ایک بدمعاش آیا ہے، مجسٹریٹ نے پکڑوا کر جیل بھجوادیا۔ وہاں سے چھوٹے تو سوچا چلو ایس پی سے فریاد رسی کریں تو ایس پی بھی ان کا مفعول نکلا۔ اس نے لات اور گھونسوں سے خوب تواضع کی، غرض ان کو وطن چھوڑ کے بھاگنا پڑا۔ اس