ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
تفسیر علامہ آلوسی نے کی ہےاَیْ عَلِیْمٌ بِاَہْلِہٖ وَمَحَلِّہٖ؎ یعنی اﷲ تعالیٰ خوب جانتے ہیں کہ کون ہمارے فضل کے قابل ہے، ظاہری قابلیت اور چیز ہے اور اﷲ کے دربار میں مقبولیت اور چیز ہے، قابل ہونا اور چیز ہے اور مقبول ہونا اور چیز ہے، بعضے بندے بہت قابل ہیں مگر مقبول نہیں ہیں، بعضے بندے بہت مقبول ہیں مگر قابل نہیں ہیں اور بعضوں کو اﷲ دونوں نعمتیں دے دیتے ہیں، وہ قابل بھی ہیں اور مقبول بھی ہیں۔ میں اﷲ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ فالج کی اس بیماری میں بھی میرا حافظہ ماشاء اﷲ! بالکل درست ہے ورنہ میں نے کانپور میں ایک حکیم صاحب کو دیکھا جن کی عیادت کے لیے میں اپنے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ کے ساتھ گیا تھا، ان کوفالج ہو گیا تھا، وہ حافظ ِقرآن تھے مگر قُلْ ھُوَاللہُ بھی یاد نہ رہی تھی، یہ بڑا خطرناک مرض ہے، حافظہ پر بہت برا اثر پڑتا ہے اسی لیے میں اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اَلْحَمْدُلِلہِ الَّذِیْ بِنِعْمَتِہٖ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ؎ تشکر میں اﷲ تعالیٰ بندے کے سامنے ہوتے ہیں اور تکبر میں نظر اﷲ سے ہٹ جاتی ہے، اپنی صفت پر ہوتی ہے، تشکر میں اﷲ سامنے ہوتاہے کہ اے اﷲ! یہ آپ کا احسان، آپ کا کرم، آپ کا فضل ہے اورتکبر میں اﷲ یاد ہی نہیں رہتا، متکبر کہتا ہے کہ بس میرے سوا کوئی نہیں ہے، ہم ہی ہم ہیں،تو یہ ہے وجہ تشکر کے ساتھ تکبر کے جمع نہ ہونے کی کہ تشکر میں غفلت سے حفاظت رہتی ہے، تشکر والا کبھی اﷲ سے غافل نہیں ہوسکتا، ہر وقت اﷲ کو سامنے رکھتا ہے کہ سب آپ ہی کا کرم ہے، ہم کچھ بھی نہیں ہیں اور تکبر والا کہتا ہے کہ ہم ہی سب کچھ ہیں، اس لیے تشکر اور تکبر جمع نہیں ہوسکتے، دونوں میں تضاد ہے اور اجتماعِ ضدین محال ہے۔ تکبر سے بچنے کے لیے حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا ہے کہ جو شخص چاہے کہ تکبر سے محفوظ رہے وہ روزانہ دو جملے اﷲ تعالیٰ سے عرض کر دے کہ یا اﷲ میں تمام مسلمانوں سے کمتر ہوں فی الحال اور تمام جانوروں سے اور کافروں سے کمتر ہوں فی المآل ------------------------------