ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
اور منکر سے جان پہچان نہیں اس لیے جب کو ئی پہلی بار گناہ کرتا ہے تو پسینہ آجاتا ہے ؎ نہ ہم آئے نہ تم آئے کہیں سے پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے لیکن منکر کرتے کرتے وہ طبیعت کو مانوس ہوجاتا ہے۔ جب عادت بگڑ جاتی ہے تو بغیر تمباکو کھائے چین نہیں ملتا اور جو تمباکو نہیں کھاتے وہ اگر کھالیں تو پسینہ آجائے، بے ہوش ہوجائیں، لیکن اگر تمباکو کی تھوڑی تھوڑی عادت پڑجائے تو چار چھ مہینے کے بعد اگر تمباکو نہ ملے تو اس کو تلاش کرتا ہے، سید صاحب، شیخ صاحب، خان صاحب غرض بہت ہی معزز لوگ بھی بھنگی سے حقہ مانگ لیتے ہیں کہ بھئی اپنے چلم سے ذرا ایک کش ہمیں کھینچ لینے دو، جس حقہ میں وہ بھنگی پی رہا ہے اسی حقہ میں سے حصہ مانگ لیتے ہیں کیوں کہ یہ حقہ کے عادی ہیں۔ اسی طرح نفس بھی بدمعاش ہے، جب یہ گناہ کا عادی ہوجاتا ہے پھر اگر اس کو گناہ نہ ملے تو تلاش کرتا ہے، یہی حسینوں سے پِٹواتا ہے، معشوقوں سے گالی کھلواتا ہے، ساری شرافت ختم ہوجاتی ہے جب معشوق انہیں گالیاں دیتا ہے اور بعض خبیث الطبع لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی گالیاں کھا کر کہتے ہیں کہ آپ کی گالی تو مٹھائی ہے لیکن یہی معشوق جب بڈھا ہوجاتا ہے تو اس سے کتراتے ہیں، اس کی ملاقات سے گھبراتے ہیں پھر خود کو ہزار گالیاں دیتا ہے کہ تونے شیطانی کی مگر جب بدمعاشی کررہا تھا اس وقت اس شیطان کو اپنی شیطانیت کا بھی احساس نہیں تھا، اصلی بے وقوف وہ ہے جو اپنے کو بے وقوف نہ سمجھتا ہو حالاں کہ وہ ہوتابے وقوف ہے لیکن خود کو عقل مند سمجھتا ہے، اسی طرح اصلی شیطان وہ ہے جس کو اپنی شیطانیت پر ندامت نہ ہو۔ امر بالمعروف آسان ہے، نہی عن المنکر مشکل کام ہے، لیکن مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ دعویٰ مرغابی کردہ ست جاں کے ز طوفانِ بلا دارد فغاں میری جان نے مرغابی ہونے کا دعویٰ کیا ہے، میں اﷲ کے دریائے معرفت میں مرغابی