ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یہ اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے، اﷲ تعالیٰ کے فضل کے شکر گزار ہوجاؤ کیوں کہ شکر جھکاتا ہے اور تکبر اکڑاتا ہے، تکبر بُعد کا سبب ہے اور تشکر قُرب کا سبب ہے، قرب کا سبب اور بُعدکا سبب دونوں جمع نہیں ہوسکتے، اجتماعِ ضدین محال ہے۔ جنوبی افریقہ کے ایک صاحب جو بہت بڑے عالم ہیں اور میرے خلیفہ بھی ہیں انہوں نے فون پر مجھ سے کہا کہ مجھے تکبر کا اندیشہ ہے کیوں کہ بڑے بڑے لوگ مجھ سے مرید ہو رہے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ جب کبھی کوئی نعمت ملے تو اﷲ کا شکر ادا کیا کرو، اﷲ کا شکر ادا کرنے سے تکبر قریب نہیں آسکتا کیوں کہ تکبر سببِ بُعدہے اور تشکر سببِ قرب ہے اور سببِ بُعد اور سببِ قرب میں تضاد ہے اور اجتماعِ ضدین محال ہے، یہ میرا ٹیلی فونک خطاب ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ چیزیں فضل سے ملتی ہیں جب تک اﷲ کا فضل نہ ہو اعمالِ صالحہ کی اور تقویٰ اختیار کرنے کی توفیق نہیں ہوتی، کتنا ہی بڑا بہادر پہلوان ہو خدا کی توفیق کے بغیر چوڑیاں پہننے والے ہیجڑا سے بد تر ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا فضل، اﷲ تعالیٰ کی رحمت، اﷲ تعالیٰ کی مشیت یہ تین چیزیں ہدایت کے لیے ضروری ہیں۔ نبی سے بڑھ کر کون مربی اور پیر ہوسکتا ہے، لیکن اﷲ تعالیٰ صحابہ کرام سے فرماتے ہیں کہ اے اصحابِ محمد! صلی اﷲ علیہ وسلموَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ اَبَدًا ۙ وَّلٰکِنَّ اللہَ یُزَکِّیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕجب تک اﷲ تعالیٰ کا فضل، اﷲ تعالیٰ کی رحمت، اﷲ تعالیٰ کی مشیت نہ ہو تم میں سے کوئی بھی پاک نہیں ہوسکتا، اس لیے رسول کو خدا نہ بناؤ، ذریعۂ ہدایت سمجھو کہ وہ ہدایت کا سبب ہیں مگر رسول بھی محتاج ہوتا ہے مسبب کا، اختیار سب کا سب اﷲ ہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اﷲ نے جس کو چاہا اس کو ہدایت مل گئی۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لیے اﷲ تعالیٰ نے چاہا ان کو ہدایت مل گئی، ابو طالب کے لیے نہیں چاہا تو نہیں ملی یہاں تک کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے کان میں کہا کہ چچا! اگر سب کے سامنے ایمان لانے میں آپ کو شرم معلوم ہوتی ہے تو میرے کان میں کلمہ پڑھ دیجیے، میں قیامت کے دن آپ کے ایمان کی گواہی دوں گا۔ تو ابو طالب نے کہا اِخْتَرْتُ النَّارَ عَلَی الْعَارِ میں جہنم کوترجیح دیتا ہوں اس بد نامی