ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
سارے عالم کے مسلمان ایک قوم ہیں، اقوام نہیں ہیں۔ اس کے بعد فرمایا: اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ اصولاً تو یہاں لام آنا چاہیے تھا کیوں کہ ذَلَّ یَذُلُّ کا صلہ لام آتا ہے، ذَلَّ زَیْدٌ لِفُلَانٍ، ذَلَّ زَیْدٌ نَفْسَہٗ لِفُلَانٍلیکن اﷲ تعالیٰ نے عَلٰی کیوں نازل فرمایا؟تاکہ معلوم ہوجائے کہ صحابہ جو مومنین کے سامنے تواضع اختیار کرتے ہیں تو ان کی یہ تواضع، یہ ذلت خصلتِ ذاتیہ نہیں ہے بلکہ فی نفسہٖ یہ بڑی عزت والے لوگ ہیں،یہ فطرتاً ذلیل نہیں ہیں، یہ گداگر تواضع کند خوئے اوست نہیں ہیں اس لیے عَلٰی نازل فرمایا کہ یہ ہیں تو بڑے معزز لوگ مگر اﷲکے لیے اپنے نفس کو مٹائے ہوئے ہیں، اﷲ کے لیے اپنے نفس کو ذلیل کیے ہوئے ہیں لیکن ان کی یہ تواضع صرف ایمان والوں کے ساتھ ہے، کافرو ں کے مقابلہ میں وہ سیر کے سوا سیر ہیں، کافروں کے ساتھ تواضع حرام ہے، کیا کافروں سے کوئی یہ کہے گا کہ ناچیز حقیر فقیر عبدالقدیر آپ سے لڑنے آیا ہے؟ کافروں سے ایسی تواضع حرام ہے، ان سے تو یہی کہو کہ اگر تم سیر ہو تو ہم سوا سیر ہیں۔ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَمیںعَلٰی اسی لیے آیا ہے کہ صحابہ اپنی فطرت کے اعتبار سے ذلیل نہیں ہیں بلکہ بہت معزز لوگ ہیں مگراﷲ کے لیے اپنے کو مٹادیا ہے اور اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ کافروں کے سامنے شدید ہیں، یہ عَلٰی بتاتا ہے کہ اگر وہ ذلیل ہوتے تو کافروں کے مقابلے میں بھی ذلیل ہوتے مگر صحابہ کرام کافروں کے سامنے اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ ہیں۔ آگے اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ یہ اﷲ کے راستہ میں مشقت اٹھاتے ہیں، یہ نہیں کہ مالِ غنیمت تو خوب شوق سے لے لیں اور جب کوئی مصیبت اور مشقت آئے تو بھاگ نکلیں، مصیبت کے وقت میں ہتھیار ڈال دیں، یہ وہ لوگ نہیں ہیں ؎ آں نہ من باشم کہ روزِ جنگ بینی پشتِ من آں منم کاندر میانِ خاک و خوں بینی سرے میں وہ نہیں ہوں کہ جنگ کے دن تم لوگ میری پشت دیکھو ، میں تو وہ ہوں کہ میدانِ جنگ