ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
لیے اس کی غذا بن جاتی ہے، وہ تلملاتا رہتا ہے، جب تک اس کو کوئی منکر نہ ملے، جب تک گناہ نہ کرلے پریشان رہتا ہے۔ عادت بری بلا ہے، اس لیے گناہوں سے بچو، بری عادت نہ ڈالو، عادت بری ہونے کے اسباب سے بھی بچنا چاہیے ورنہ اگر عادت بگڑ گئی تو کتے کی دم کی طرح ہوجائے گی کہ برسوں بانس میں رکھا لیکن جب نکالا تو ٹیڑھی تھی لیکن کتے کی دم میں اور انسان میں فرق ہے۔ انسان اگر ایک عرصہ تک گناہ نہ کرے اور نیک صحبت میں رہے اور گناہ کا خیال بھی نہ لائے تو دھیرے دھیرے ایک زمانہ آتا ہے کہ وہ نیک ہوجاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ذرا سی بھی نافرمانی ہوجائے تو تڑپ جاتا ہے جیسے قطب نما کی سوئی ہوتی ہے کہ جب سوئی کا قبلہ بدل جاتا ہے تو پتا چل جاتا ہے کہ اس کا قبلہ بدلا ہوا ہے۔ اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کی سوئی بے چین رہتی ہے، جب تک قبلہ درست نہیں کرلیتی مسلسل پریشان و بے چین رہتی ہے، ہلتی رہتی ہے اور جب قطب نما کا قبلہ درست ہوجاتا ہے تو سکون میں آجاتی ہے۔ پس جس طرح قطب نما کی سوئی کی بے سکونی سے لوگ پہچان جاتے ہیں کہ اس کا قبلہ درست نہیں اسی طرح جن کے دل اﷲ کی نافرمانی سے بے چین ہیں اللہ والے پہچان جاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بدنظری کرنے والے کو پہچان لیا جو بدنظری کرکے آپ کی مجلس میں آیا تھا۔ آپ نے فرمایا: مَا بَالُ اَقْوَامٍ یَتَرَشَّحُ مِنْ اَعْیُنِھِمُ الزِّنَا؎ کیا حال ہے ایسی قو م کا جس کی آنکھوں سے زِنا ٹپک رہا ہے۔ آپ نے چہرہ کی بے چینی سے سمجھ لیا۔ کیوں کہ صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اس حدیث کو سنا تھا کہ زِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ نظر باز آنکھوں سے زِنا کرتا ہے، پس ان کے قلبِ مصفی پر آنکھوں کے زِنا کی ظلمت منکشف ہوگئی۔ صحابہ جانتے تھے کہ اللہ کا ولی وہ نہیں ہوسکتا جو آنکھوں کا زِنا کرتا ہو۔ وہ لوگ حریص تھے کہ اللہ ہم سے راضی رہے۔ ان کی روح میں طلبِ رضائےحق کا طوفان تھا، وہ رضائے حق کو تلاش کرتے تھے اور ناراضگیِ حق سے بچتے تھے۔ اُس زمانہ میں نافرمانی کا تصور بھی نہیں تھا۔ ------------------------------