ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْمُسْبِلِیْنَ ؎ اﷲ تعالیٰ اسبالِ ازار یعنی ٹخنہ چھپانے والے کو پسند نہیں کرتے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ نے ایک حدیث لکھی ہے کہ ایک صحابی نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اے اﷲ کے رسول! میری پنڈلی سوکھ گئی ہے، اگر میں ٹخنہ کھولتا ہوں تو لوگ میرا عیب جان جائیں گے، مجھے اجازت دیجیے کہ میں ٹخنہ چھپا کے رکھوں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرض تو خدا کی طرف سے ہے ، مگر یہ فعل، میری نافرمانی، تمہاری طرف سے ہوگی پھر ایک جملہ تازیانۂ محبت کا ارشاد فرمایا: اَمَا لَکَ فِیَّ اُسْوَۃٌ ؎ ترجمہ:۔ کیا میری زندگی تیرے لیے نمونہ نہیں ہے؟ دوسرا حکم یہ ہے کہ اپنے چہرے پر داڑھی رکھو اور کتنی رکھو؟ ناف تک نہیں، بمبئی میں ایک آدمی نے داڑھی رکھی تھی، جب پیشاب کرتا تھا تو داڑھی کو بغل میں دبا لیتا تھا۔ داڑھی کی بھی ایک حد ہے،اس کی پلاٹنگ (Plotting) حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمائی کہ ایک مشت رکھو اور مشت کے بعد جو بڑھ جائے تو اس کو کاٹ دو، یعنی ایک مٹھی اور مٹھی حجام کے بچے کی نہ ہو، اپنی مٹھی سے ایک مٹھی رکھو، سامنے سے بھی، دائیں طرف سے بھی، بائیں طرف سے بھی، تین طرف سے ایک مٹھی رکھو اور نیچے والے ہونٹ کے نیچے جو بال ہیں یہ داڑھی کا بچہ ہے، یہ بچہ ہی رہتا ہے، بالغ ہی نہیں ہوتا، اس کو بھی کاٹنا جائز نہیں ہے۔ البتہ گردن کی طرف سے جو بال بڑھ جاتے ہیں تو جو بال داڑھی سے ملے ہوئے ہیں، داڑھی سے ملنے کی برکت سے ان کو رکھنا واجب ہے اور جو بال فرار اختیار کر رہے ہیں، داڑھی سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ سمت مخالفت کو بھاگ رہے ہیں تو ان کو کاٹ سکتے ہیں۔ ایک مسئلہ مونچھوں کا بھی ہے، مونچھوں کا یہ کنارہ شفۃ علیا کا طرفِ آخر یعنی اوپر کے ہونٹ کے آخری کنارہ سے مونچھ ذرا سی بھی بڑھنے نہ پائے، آگے بڑھ جائے تو اس کو پیچھے کرنا آپ کا کام ہے، آگے بڑھنا اس کا کام ہے اور پیچھے قینچی سے کرلو۔ اوجز المسالک شرح مؤطا امام مالک ------------------------------