ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
مِنْ جِہَۃِ الْاِسْرَافِ ؎ فضول خرچی کی وجہ سے کہ اتنا کپڑا ضایع ہوتا ہے۔ اب کوئی کہے کہ اتنا ذرا سا کپڑا ضایع ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ ہماری نظر تو اپنے تک ہے، یہ دیکھو کہ لاکھوں مسلمانوں میں کتنا کپڑا ضایع ہوگا اور ٹخنہ نہ چھپانے سے کتنا کپڑا بچے گا، جس میں لاکھوں مسلمانوں کا لباس بن جائے گا۔ اوّل تو مسلمان کو وجہ پوچھنی ہی نہیں چاہیے۔ جب مسلمان کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ فرمانِ عالیشان ہے تو وجہ پوچھنا بے ادبی ہے، لیکن وجہ بتانا شفقت کی دلیل ہے،مشفقین، مربیین شفقت کی وجہ سے بیان کردیتے ہیں۔ تو یہ چار سبب ہیں جن کی وجہ سے اسبالِ ازار یعنی ٹخنہ چھپانا حرام قرار دیا گیا ہے۔ جب یہ حکم رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جاری فرمایا تو سوائے منافقین کے سب کے ٹخنے کھل گئے۔ منافقین نے اس پر عمل نہیں کیا اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو جب فیروز مجوسی کافر نے زہر میں بُجھایا ہوا خنجر مارا تو اس وقت آپ سخت بے چینی اور کرب میں تھے مگر غلام کی لنگی ٹخنوں سے نیچے لٹکی ہوئی دیکھ کر فرمایا اِرْفَعْ اِزَارَکَ اے غلام! تو اپنی لنگی کو اوپر کرلے۔ بتایئے! خون نکل رہا ہے، اﷲ سے ملنے والے ہیں، اگر یہ حکم زیادہ اہم نہ ہوتا یعنی معمولی ہوتا تو ایسے وقت میں آپ تنبیہ نہ فرماتے، لہٰذا سمجھ لینا چاہیے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان جب معلوم ہو جائے تو مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس سے پہلو تہی کرے، اب پھر سے سن لیجیے! پہلا سبق پاجامہ یا لنگی یا کرتا، جو لباس اوپر سے آرہا ہو اس سے ٹخنے چھپانا حرام ہے اور جو لباس نیچے سے آرہا ہو جیسے موزہ، تو موزہ چاہے گردن تک بنوالو، اس سے کوئی گناہ نہیں ہے اور ٹخنہ کھولنے کا حکم عورتوں کے لیے نہیں ہے ان کو ٹخنہ چھپانا چاہیے۔ مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اﷲ علیہ نے بَذْلُ الْمَجْہُوْدِ شرح ابو داؤد میں یہ بھی لکھا ہے کہ مردوں کو ٹخنے کھلے رکھنے کا حکم دو حالتوں میں ہے۔ ایک جب کھڑے ہوں اور دوسرا جب چل رہے ہوں، اگر بیٹھے ہوئے ہیں یا لیٹے ہوئے ہیں تو ٹخنے چھپانے میں کوئی حرج نہیں۔ حدیثِ پاک ہے: ------------------------------