ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
اور خطرناک ہے کہ آدمی اس کی پرواہ نہیں کرتا یہاں تک کہ وہ ہڈیوں میں اُتر جاتی ہے اور تپ دق ہوجاتا ہے اس کے برعکس تیز بخار سے آدمی گھبرا جاتا ہے اور علاج کرتا ہے۔ اس لیے زیادہ حسن سے سالک ہوشیار ہوجاتا ہے کہ اس سے بچنا چاہیے اور کم حسین سے نہیں گھبراتا اور بے فکری سے اس کو دیکھتا ہے، بات چیت کرتا ہے یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس کے حسن کا زہر اپنا اثر کرتا جاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کا چار آنہ حسن سولہ آنہ نظر آنے لگتا ہے اور اس کے عشق میں مبتلا ہوکر پیشاب پاخانہ کی گٹر لائنوں میں ذلیل و رسوا ہو جاتا ہے۔ اس لیے کم حسین زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ ان سے بہت احتیاط کرنی چاہیے۔ یہ بات آپ ایک طبیب ہی سے سنیں گے۔ اس لیے حفاظتِ نظر کی تین دلیلیں سناتا ہوں۔ پہلی دلیل قرآن شریف کی ہے: قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ ایمان والوں سے فرمادیجیے کہ اپنی بعض نگاہوں کو نیچی کرلیں، ہر نگاہ کو نہیں، ماں باپ کو دیکھو، بیوی بچوں کو دیکھو، درختوں کو دیکھو کہ اللہ کے حکم سے کیسے کھڑے ہیں، پانی کا نظارہ کرو جیسے سمندر اور دریا، دیکھنے کی بہت سی چیزیں ہیں۔ اللہ کے کلام کی ایک آیت ہی شریف آدمی کے لیے کافی ہے۔ اس کے بعد بخاری شریف کی حدیث ہے کہ زِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ نظر بازی آنکھوں کا زِنا ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے ہیں،آخر آپ نے ایسے ہی تو نہیں فرمادیے۔ جب نظر بازی آنکھوں کازِنا ہے تو آنکھوں کا زِنا کار ولی اللہ ہو سکتا ہے؟ پھر مشکوٰۃ کی روایت ہے لَعَنَ اللہُ النَّاظِرَ وَالْمَنْظُوْرَ اِلَیْہِ ناظر پر بھی اﷲ کی لعنت ہو اور منظور پر بھی لعنت ہو، یہاں منظورۃ نہیں لگایا کیوں کہ عورت متعین نہیں ہے، اس میں لڑکے بھی داخل ہیں۔ ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث شریف میں ناظر اور منظور ہے ،ناظرۃاور منظورۃ نہیں ہے کیوں کہ تبعاً عورتیں خود اس میں شامل ہیں۔ بس نظر کرنے والا اور نظر کرنے والی اور جو اپنے آپ کو بدنظری کے واسطے پیش کرتا ہو یا کرتی ہو دونوں پر لعنت آئی ہے اور لعنت کے کیا معنیٰ