ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
جب حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھنا تو لیموں کاٹ دینا۔ حضرت یوسف علیہ السلام جب ان کے سامنے سے گزرے تو انہوں نے بجائے لیموں کے اپنی انگلیاں کاٹ لیں۔ دیکھو! حسن ایسی چیز ہے کہ اُن عورتوں کو ہوش ہی نہیں رہا تھا، حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھتے ہی اُن کے ہوش اڑ گئے۔ ہوش رُبا کے سامنے ہوش کیا بیچتا ہے۔ حسن کو دیکھ کر خوش نہ ہو بلکہ ڈر جاؤ کہ یہ امتحان ہے۔ یہ قرآن شریف ہے، کوئی قصہ کہانی کی کتاب نہیں ہے۔ یہ واقعہ پیش کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ بس پڑھ کر آگے گزر گئے بلکہ پڑھ کر عبرت حاصل کرو۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں یہ قصہ اس لیے بیان فرمایا کہ ہم لوگ حسن کے سامنے بہادری نہ دِکھائیں۔ دیکھ لو! مصر کی عورتوں کی انگلیاں کٹ گئیں۔حسن ایسا فتنہ ہے کہ انگلیاں کیا گردنیں کٹ جاتی ہیں، قتل ہوجاتے ہیں لہٰذا ہوشیار ہوجاؤ، یہ قصہ ہوشیار کرنے کے لیے ہے، اس قصہ کو سنو اور اس سے عبرت لو، کیا بہادر بنے ہوئے ہو کہ حسن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، ہم بڑے مضبوط ہیں، ان عورتوں نے بھی بہادری دِکھائی تھی، مگر انگلیاں کاٹ لیں، حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھتے ہی ہوش اُڑ گئے، بس اپنے کو ضعیف کمزور سمجھو، ناتواں سمجھو، پہلوان مت بنوکہ ہم بڑے متقی ہیں۔ یاد رکھو! سارا تقویٰ خاک میں مل جائے گا، زلیخا کا مقصد ہی یہی تھا کہ ان عورتوں کو دِکھا دیں کہ غلام سے ہم ہی نہیں تم لوگ بھی مغلوب ہوگئیں۔ یہاں ایک شعر یاد آگیا جو ایک شاعر نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی طرف سے حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں کہا ؎ اپنے یوسف کو مرے یوسف سے مت تشبیہ دے اے زلیخا! اِس پہ سر کٹتے ہیں ، اُس پر انگلیاں غرض کسی حسین کو مت دیکھو، چاہے زیادہ حسین ہو یا کم حسین ہو بلکہ کم حسین زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیوں کہ بے وقوف آدمی سمجھتا ہے کہ کوئی بات نہیں، معمولی سا حسن ہے، اس سے کیا بچنا! اگر زیادہ حسن ہوتا تو اس سے بچتے، حالاں کہ کم حسین سے زیادہ بچنا چاہیے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہلکی حرارت زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ افلاطون، بقراط، سقراط، بو علی سینا، جالینوس سب حکیموں کا اتفاق ہے کہ ہلکی حرارت اس لیے زیادہ نقصان دہ