ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
ارشاد فرمایا کہ خونِ تمنا کا لفظ کہنا توآسان ہے مگر جب تمناؤں کا خون پینا پڑتاہے تب پتا چلتاہے کہ اس میں کیا مزہ ہے۔ اسی خونِ تمنا سے حلاوتِ ایمانی ملتی ہے۔ شیر خون پیتاہے تو اس میں کتنی طاقت آجاتی ہے کہ دریا کے بہاؤکے خلاف تیرتاہے۔ اِسی طرح جو مومن اپنی حرام تمناؤں کا خون پیتا ہے اُس میں اتنی طاقت آجاتی ہے کہ وہ معاشرہ پر غالب رہتا ہے، معاشرہ کی رفتا رکے خلاف اللہ کی مرضی پر چلتا ہے اور جو تقاضائے نفس سے مغلوب ہوکرگناہ کرلیتاہے وہ ظالم شیر نہیں ہے لومڑی ہے، رُوباہ خصلت ہے، بزدل ہے۔ شیر کی غذا خون ہے اور مومن کی کیا غذا ہے؟ اپنی حرام تمناؤں کا خون۔ میرا شعر ہے ؎ نے ترا دل نے تری جاں چاہیے اُن کو تجھ سے خونِ ارماں چاہیے کتنا ہی ارمان ہو، کتنی ہی تمنا ہو، کتنا ہی دل چاہتاہو کہ اس شکل کو دیکھ لو، پھرنہ جانے یہ سامنے آئے یا نہ آئے اس وقت خونِ تمنا پی لو تو پھر ایمان کا عالم کچھ اور عالم ہوگا۔شیرخون پیتاہے تو اس کی طاقت کتنی ہوتی ہے جس طرف چلتاہے زمین ہلتی ہے، سارا جنگل اس سے کانپتاہے۔ اگر خونِ تمنا، خونِ ارماں کرنے کی توفیق ہوگئی توان شاء اﷲ! آپ سے بھی سارا عالم کانپے گا۔ جس طرف جائیں گے ہلچل مچ جائے گی۔ روباہ خصلتی سے توبہ کرو، شکل دیکھو تو بایزید بسطامی کی ہے مگر خونِ تمنا کرنا کیوں مشکل معلوم ہوتاہے؟ یہ کیا بات ہے کہ شکل توشیروں کی ہے اور کام لومڑیوں جیساہے۔ شرم کرو، شرم کرو، شرم کرو۔ درسِ تسلیم یہ ہے کہ اﷲکے حکم کے سامنے سرڈال دو، اپنی رائے بالکل نہ رہے، جو اﷲکو منظور ہے وہی ہم کو منظور ہے اور اس کے خلاف لومڑیانہ حرکت دِکھانا بالکل پسماندہ لوگوں کا کام ہے، وہ سلوک میں کبھی ترقی نہیں کرسکتے جو لومڑی کی طرح جیتے ہیں کہ جیسا چاہاکرلیں۔ دل کے خلاف، معاشرہ کے خلاف کام کرو، دل چاہتاہے کہ فلاں شکل دیکھ لو، اُس وقت غراؤ کہ دیکھتاہوں کہ تو کیسے دیکھتاہے۔ غراناسیکھو، شیر کی طرح دنیا میں رہو تب آپ ولی بنیں گے۔ اس کے بعد حضرت والانے مولانا منصورالحق صاحب سے کلام سنانے کے