ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
گر نہ صبرم می کشیدے بارِ زن کے کشیدے شیرِ نر بیگارِ من اگر میرا صبربیوی کا بوجھ نہ اُٹھاتا تو یہ شیر کب میری بے گاری کرتا۔ اب دیکھو میرا نوکر بنا ہوا ہے۔ ایسے کتنے ہی واقعات ہیں کہ جن کے نفلی اعمال زیادہ نہیں تھے مگر بیوی کی بداخلاقیوں پر صبر کرنے سے اﷲ تعالیٰ کے یہاں ان کا بہت بڑا درجہ ہوا، اس لیے کہتا ہوں کہ بیوی کی کڑوی باتوں پر صبر کرو، سوچو کہ اگر اپنی بیٹی ایسی ہوتی تو ہم کیا چاہتے؟ یہی چاہتے کہ داماد بہت اچھا سلوک کرے، معاف کر دیا کرے، اگر ایسا داماد مل جائے تو آپ کہیں گے کہ میرا داماد فرشتہ ہے، اگر میرے پاس جائیداد ہوتی تو میں سب اس کے نام لکھ دیتا، میری بیٹی تو مزاج کی کڑوی ہے، مگر میرا داماد فرشتہ ہے، فرشتہ! برداشت کرتا ہے، اُف نہیں کرتا، اﷲ کی بندی سمجھ کر۔ خود سوچو کہ اﷲ کی بندیوں سے جو اچھا سلوک کرے گا تو اﷲ کو اس پر کتنا پیار آئے گا۔ مظہر جانِ جاناں بہت بزرگ آدمی تھے مگر انتہائی نازک مزاج تھے۔ دہلی کی جامع مسجد میں نماز پڑھنے جاتے، راستہ میں اگر کوئی چارپائی ٹیڑھی پڑی ہوئی ہوتی تو ان کے سر میں درد ہوجاتا تھا اور نئی رضائی اوڑھی اور اس کی سلائی ٹیڑھی ہوئی تو رات بھر نیند نہیں آتی تھی۔ بادشاہ آیا اور اس نے پانی پیا، پانی پی کر صراحی پر پیالہ ترچھا رکھ دیا تو سر میں درد ہوگیا لیکن صبر کیا پھر بادشاہ نے کہا کہ حضور! اگر اجازت ہو تو کوئی خادم دے دوں،اس کی تنخواہ میں ادا کروں گا۔ فرمایا کہ اب تک تو میں نے صبر کیا لیکن اب صبر کا پیالہ لبریز ہوگیا۔ جب تمہارا یہ حال ہے کہ تم نے پانی پی کر پیالہ ترچھا رکھ دیا جس سے میرے سر میں درد ہوگیا تو تمہارے خادم کا کیا حال ہوگا، وہ مجھے کتنا ستائے گا۔ مزاج اتنا حساس اور نازک تھا مگر اﷲ تعالیٰ نے اِلہام فرمایا اور یہ واقعہ میرے شیخ نے مجھ سے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے قلب پر اِلہام فرمایا کہ فلاں محلہ میں ایک عورت ہے جو نماز، روزہ کی پابند ہے اور مجھ کو بہت یاد کرتی ہے مگر مزاج کی بڑی کڑوی ہے، تم اگر اس سے شادی کرلو تو ہم تم کو نواز دیں گے، سارے عالم میں تمہارا ڈنکا پٹوا دیں گے، ایسا درجہ دیں گے کہ لوگ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور تم سب سے اونچے ہوجاؤگے۔ حضرت جانِ جاناں نے جا کر پیغام دے دیا اور اس اِلہام پر شادی کر لی۔ اب کیا تھا صبح