ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
ساتھ نرمی سے پیش آنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کیوں کہ وہ ضعیف العقل ہیں۔ حضرت حکیم الامت رحمۃ اﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک شخص کی بیوی سے سالن میں نمک تیز ہوگیا۔ وہ غریب آدمی تھا چھ مہینے پیسہ بچا بچا کر مرغی لے کر آیا تھا، نمک اتنا تیز ہوگیا کہ اس سے کھایا نہیں گیا، اس نے دل میں سوچا کہ اﷲ کی بندی ہے، ہاتھ ہی تو ہے، تیز ہوگیا نمک، اس نے کہا:یا اﷲ! میں اپنی بیوی کو نہ ماروں گا نہ پیٹوں گا، صبر کروں گا، یہ کہہ کر سوگیا۔ جب اس کا انتقال ہوا تو ایک بزرگ نے خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ اﷲ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا، اس نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک دن ہماری بندی سے نمک تیز ہوگیا تھا اور تو نے معاف کردیا تھا، اس معافی کے بدلہ میں تیری تمام خطاؤں کو معاف کرتا ہوں۔ بہت سے اﷲ کے بندے صرف بیوی کی کڑوی کڑوی باتوں پر صبر کرنے سے ولی اﷲ ہوگئے جس میں سے ایک شاہ ابو الحسن خرقانی ہیں۔ ان کی بیوی بہت بد مزاج تھیں لیکن وہ صبرکرتے تھے۔ ایک شخص خراسان سے مرید ہونے کے لیے آیا۔ ان کی بیوی نے دو چار گالیاں دے کر کہا کہ تم کہاں پھنس گئے، کس کے چکر میں آگئے، بالکل بدھو معلوم ہوتے ہو؟ اپنے شوہر کو بہت کچھ برا بھلا کہا کہ ہمارے سامنے ان کے دن رات ہیں، وہ بہت چکر باز شخص ہیں تو وہ بے چارہ رونے لگا کہ میرا اتنی دور سے آنا بے کار گیا۔ محلہ والوں سے پوچھا، محلہ والوں نے کہا کہ یہ عورت بدتمیز ہے، وہ شیخ کی قدر کیا جانے۔ جاؤ! شیخ کو دیکھو جنگل سے لکڑیاں لا رہے ہوں گے۔ محلہ والوں کے کہنے سے یہ جنگل کی طرف چلے گئے۔ دیکھا کہ شیخ شیر کی پیٹھ پر لکڑیاں لادے ہوئے آ رہے ہیں اور کوڑا سانپ کا ہے، اس سے شیر کو مارتے ہیں جب وہ چلنے میں سستی کر تا ہے ۔ انہوں نے شیخ کو دیکھا اور شیخ نے ان کو دیکھا۔ شیخ سمجھ گئے کہ بیوی سے ملاقات کر کے آ رہا ہے، فرمایا کہ دیکھو! اگر اس بیوی کی تلخیوں پر میں صبر نہ کرتا تو اﷲ تعالیٰ یہ کرامت مجھ کو نہ دیتا کہ شیر میری بیگاری کر رہا ہے، میں اس کو سانپ کے کوڑے سے مار رہا ہوں، یہ اس صبر کا انعام ہے جو بیوی کی بداخلاقیوں پر میں کرتا ہوں اور اس کو کچھ نہیں کہتا اور اگر میں اسے طلاق دے دوں تو جائز ہے لیکن میرے کسی دوسرے مسلمان بھائی کو ستائے گی، اس سے اچھا ہے کہ میں ہی صبر کرلوں اس مو قع پر میرے شیخ مولانا رومی کا یہ شعر پڑھتے تھے ؎