ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
میں نہ یہ لمبی چوڑی تعمیر تھی نہ اساتذہ ترک اور شان سے رہتے تھے نہ طلباء کا کوئی فیشن تھا پھٹے ہوئےکپڑے ٹوٹی ہوئی جوتیاں یہ ان کا ظاہری حال تھا نہ اس جدید قسم کے قواعد اور قانون تھے نہ اتنے ممبر اور محراب تھے کام جو کچھ ہوا سب کو معلوم ہے کہ کیسے کیسے با کمال لوگ فارغ ہو کر نکلے اور اب اس وقت سب کچھ ہے اور اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں وہ جو ایک چیز تھی جس کو روح کہتے ہیں وہ نہیں رہی باقی علم اور جگہ سے اب بھی بہت تھا مگر زمانہ تحریک سے وہ بھی آیا گیا ہوا اس لئے کہ طلباء کو تقریروں تحریروں اور کمیٹی جلسوں ہی سے فرصت نہیں ـ سخت افسوس ہے بعضوں کی تو یہاں تک نوبت آ گئی کہ علم دین میں مشغول ہونے کو فضول اور بیکار بتاتے ہیں ـ نہ معلوم یہ سبق کہاں سے حاصل کیا ہے ـ یورپ میں تو یہ طریقہ نہیں وہاں بھی بعض اوقات اس قسم کی تحریکات ہوتی ہیں مگر جو جماعت علم کی تحصیل میں مشغول ہے اس کو ان تحریکات میں شرکت کی اجازت نہیں دی جاتی یہیں پر دیکھ لیجئے ـ ہماری ہمسایہ قوم کس ہوشیاری اور چالاکی سے کام کر رہی ہے یہ ساری بے اصولیاں اور بد انتظامیاں مسلمانوں ہی کے حصے میں آ گئی ہیں بھیڑا چال ہے جس طرف کو ایک چلا اسی طرف کو سب چلدیتے ہیں یہ بھی کوئی کام کرنے کا طریقہ ہے کہ سب ایک ہی کام میں لگ جائیں ـ اس پر دعوی ہے سیاست دانی کا میں کام کرنے کو منع نہیٰں کرتا مگر جو کچھ بھی ہو ـ اصول کے ماتحت ہو اور حدود و احکام اسلام سے تجاوز نہ ہو ـ اور طلباء کو اس قسم کی کمیٹیوں اور جلسوں میں شرکت کی اجازت ہر گز ہر گز نہ دینا چاہیے سخت مضر ہے پرائے شگون کیلئے اپنی ناک کیوں کٹائے دیتے ہو ـ ہوش سے کام کرنے کی ضرورت ہے جوش سے اول تو کام نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہے تو اس کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے ـ کیا ان کاموں کیلئے طلباء ہی رہ گئے ہیں اور مسلمان کچھ کم ہیں ان سے کام لو اگر کرنا ہی ہے مگر سنتا کون ہے جو دماغوں میں سما گئی ہے اس کے سامنے کسی خیر خواہ کا کہنا اور نفع اور ضرر کسی کی کچھ خبر نہیں کہ آخر اس کا انجام ہے کیا بے حد دل دکھتا ہے مگر سوائے دعا کے اور کیا چارہ ہے ـ حق تعالی عقل اور فہم سلیم عطا فرمائیں ـ لیکن تحقیق ہوئی ہے کہ اب ذمہ دار جماعت کو اصلاح حالت مدرسہ کی طرف توجہ ہوئی ہے اللہ تعالی کامیاب فرماوے ـ