ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
دنیاوی کے واسطے دعا کرتے ہیں ـ اب منتظر ہیں کہ کوئی بشارت قبولیت کی آئے گی کیا خبط ہے ـ حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون کیلئے بد دعا کی تھی اور اس پر اجیبت دعوتکما بھی فرما دیا گیا تھا ـ مگر موسی علیہ السلام کی دعا کی اس قبولیت کا ظہور چالیس برس بعد ہوا تھا ـ بڑی ہی دلیری کی بات ہے کہ ادھر دعا کی اور ادھر مستعجلا نہ انتظار ـ یہ بات تو انبیا ء علیہم السلام کیلئے بھی نہیں ہوئی جن کی شان یہ ہوتی کہ مستجاب الدعوات تھے ـ اس دلیری پر یاد آیا ـ ایک مرتبہ حضرت حاجی صاب رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آئے اور عرض کیا کہ ایسا وظیفہ بتلا دیجئے گا کہ خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہو جائے ـ حضرت نے فرمایا کہ آپ کو بڑا حوصلہ ہے ہم تو اس قابل بھی نہیں کہ روضئہ مبارک کے گنبد شریف ہی کی زیارت نصیب ہو جائے اللہ اکبر! کس قدر شکستگی و تواضع کا غبلہ تھا ـ اس پر حضرت والا نے فرمایا یہ سن کر ہماری آنکھیں کھل گئیں حضرت کی عجیب شان تھی اس فن کے امام تھے ہر بات میں شان محققیت و حکمت ٹپکتی تھی یہ ہی وجہ ہے کہ حضرت کے خادمیوں میں سے کوئی محروم نہیں رہا ـ ہر شخص کی اصلاح وتربیت اس کی حالت کے مطابق فرماتے تھے اسی تواضع کو مولانا فرماتے ہیں ؎ فہم و خاطر تیز کردن نیست راہ ٭ جز شکستہ می نگیرد فضل شاہ ہر کجا پستی است آب آنجا رود ٭ ہر کجا دردے شفا آنجا رود ( بہت بڑا محقق بننا طریق ( عشق میں کار آمد) نہیں ـ بادشا(حق تعالی ) کا فضل شکستہ حال ہی کی دستگیری کرتا ہے ـ (2) پانی نشیب ہی کی طرف جاتا ہے جہاں درد ہوتا ہے شفا وہیں جاتی ہے ) ـ وہاں تو مٹ جانے اور فنا ہو جانے کا سبق ملتا ہے حضرت کی خود یہ حالت تھی کہ اپنے ہر ہر خادم کو اپنے سے افضل سمجھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ آنے والوں کے قدموں کی زیارت کو اپنے لئے ذریعہ نجات سمجھتا ہوں حضرت پر شان عبدیت کا غلبہ رہتا تھا وہ عبدیت ہی اس ارشاد کا منشا تھا ـ مطلب یہ تھا کہ اپنی اہلیت کا اعتقاد نہ رکھے باقی تمنا کی ممانعت نہیں ـ