ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
یہاں تک نوبت آ گئی ہے کہ اس نے مجھ سے کہا کہ کچھ پڑھنے کو بتلاؤ میں نے اس خیال سے کہ اچھا ہے اس کو اسلام سے اور قرب و محبت ہو گی ذکر کی تعلیم کی ـ اب بے حد معتقد ہو گیا ہے اور کہتا ہے کہ مجھ کو جو تم نے پڑھنے کو بتلایا اس سے بڑا ہی جی خوش ہوتا ہے ـ آج تک کسی اپنی مذہبی چیز کے پڑھنے سے یہ بات نہیں پیدا ہوئی تھی اب اسلام کی بہت تعریف کرتا ہے ـ حضرت والا ان کی یہ تمام گفتگو سن کر فرمایا یہ طریق مضر ہے ـ صوفی ہونے کی اول اور اعظم شرط اسلام ہے جب تک یہ نہ ہو سب بے کار ہے ـ اور اس طریق سے اس کو اس کے ساتھ قرب نہ ہوگا بلکہ بعد ہوگا اور یہ باریک بات ہے جس کے سمجھ لینے کی ضرورت ہے ـ لو سنو ! ایک شخص ہندو جو ایک بزرگ سے بیعت تھا ان کی وفات کے بعد وہ حضرت مولانا گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حضرت مولانا کے ایک معتقد مولوی صاحب کا سفارشی پرچہ لیکر بغرض تجدید بیعت حاضر ہوا اور حضرت مولانا سے درخواست کی کہ مجھ کو بیعت فرما لیں مولانا نے جواب میں صاف فرما دیا کہ پہلے اسلام لے آؤ ـ وہ مسلمان نہیں ہوا ـ اور واپس چلا گیا ـ اس پر بعض حاضرین نے حضرت مولانا سے عرض کیا کہ اگر حضرت بیعت فرما لیتے تو اسلام سے اس شخص کو کچھ قرب ہی ہو جاتا ـ حضرت مولانا نے فرمایا کہ نہیں تم اس کو نہیں سمجھ سکتے اس کو اسلام سے زیادہ بعد ہو جاتا وجہ یہ کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ذکر و شغل میں جو یکسوئی ہوتی ہے اس سے بعض اوقات کشف وغیرہ ہونے لگتا ہے جو کہ کوئی کمال مقصود نہیں مگر اس سے وہ ذاکر غلطی سے یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وصول الی اللہ کے لئے اسلام بھی شرط نہیں حالانکہ وصول سے ان چیزوں کو کوئی تعلق نہیں ـ دوسری بات یہ ہے کہ اس سے دوسرے لوگوں کے عقائد خراب ہونے کا اندیشہ ہے ـ بعض لوگ یہ خیال کرتے کہ تصوف میں اسلام بھی شرط نہیں ـ اب رہا یہ سوال کہ ان بزرگ نے اس ہندو کو کیوں مرید کر لیا تھا بات یہ ہے جن بزرگ سے وہ مرید ہوا تھا وہ مجذوب تھے ان لوگوں کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے اگر نظر ہو گئی تو چھوٹی چھوٹی اور معمولی معمولی باتوں پر ہو جاتی ہے اور نہ ہو تو بڑی سے بڑی بات پر نہیں ہوتی ـ اس لئے کہ