ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
سے گاؤ کشی کی حرمت پر استدلال کیا تھا کہ گائے ان کا معبود ہے اور ذبح کرنے میں انکے معبود کی اہانت اور بے ادبی ہے اور اس کو اس آیت میں منع فرمایا گیا ہے یہ استدلالات ہیں زمانہ شورش کے لاحول ولاقوۃ الاباللہ اسی طرح صلح حدیبیہ کے وقعہ سے استدلال کیا گیا تھا کہ حضورﷺ نے ﷽﷽﷽﷽﷽﷽﷽﷽﷽﷽بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھوانا چاہا تو مشرکین نے اس کے لکھے جانے سے انکار کیا آپ نے ان کی اس درخواست کو منظور فرما کر بسمک اللھم لکھوایا پھر حضورﷺ نے محمدرسول اللہ لکھوانا چاہا تو انہوں نے محمد رسول اللہ کے لکھے جانے سے بھی انکار کیا تو آپ نے محمد بن عبداللہ اس کی جگہ لکھوایا ـ معلوم ہوا کہ صلح حدیبیہ کیلئے شعائر اسلام کو بھی چھوڑنا جائز ہے ـ میں اسکے متعلق ایک موٹی سی بات عرض کرنا چاہتا ہوں اس لئے کہ باریک بات تو علماء جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ دنیا جانتی ہے اور ہر شخص کو یہ بات معلوم ہے کہ جب دو قوموں میں صلح ہوتی ہے اور صلح نامہ لکھا جاتا ہے تو وہ صلح نامہ فریقین کی طرف منسوب ہوتا ہے اور اس صلح نامہ میں وہی مضمون لکھا جاتا ہے جو دونوں فریق کے مسلمات سے ہو ـ اس میں کوئی ایسی بات نہیں لکھی جاتی جو فریقین کو تسلیم نہ ہو ـ جب یہ حقیقت ہے تو اب سنئے کہ جس صلح نامہ پر حضور ﷺ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم اور محمد رسول اللہ لکھوانا چاہا تھا اس کے ساتھ صرف مسلمانوں ہی کا تعلق نہ تھا بلکہ مشرکین مکہ بھی اس سے تعلق رکھتے تھے یعنی وہ دونوں کی طرف منسوب تھا اور دونوں ہی کے اس پر د ستخط ہوتے ہیں اور جیسا کہ اس میں یہ بات قابل لحاظ تھی کہ اس میں کوئی بات مسلمانوں کے خیالات کے خلاف نہ ہو اسی طرح یہ بات بھی قابل رعایت تھی کہ اس صلحنامہ کا ہر مضمون خصم کو بھی تسلیم ہو اسی وجہ سے جب حضورﷺ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم اور محمد رسول اللہ لکھوانا چاہا تو مشرکین اور کفار مکہ نے صلح نامہ میں اس کا لکھا جانا منظور نہ کیا اور ان کا اس انکار سے مطلب یہ تھا کہ صلح نامہ جس طرح مسلماموں کی طرف منسوب ہوگا اسی طرح ہماری طرف منسوب کیا جاوے گا اور جس طرح مسلمانوں کے د ستخط اس پر ہونگے اسی طرح ہم کو بھی د ستخط کرنے ہونگے اس لئے صلح نامہ میں ایسے الفاظ نہ ہونے چاہیئں جس کے قبول کرنے سے ہم کو انکار ہے کیونکہ ایسے الفاظ ہوتے ہوئے ہمارے اس پر د ستخط کیسے ہوں گے ـ