ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
اور جناب اس کا تو کوئی جاہل مصنف معلوم ہوتا ہے بعض کو اہل علم ہونے کا دعوے ہے ان کی تصانیف میں ایسی خرافات ہیں جن کو دیکھنے اور پڑھنے سے رونگٹا کھڑا ہوتا ہے ـ اور ایسے مضامین اکثر فضائل نبویہ میں بیان کئے جاتے ہیں جو دوسرے انبیاء علیہم السلام کی تنقیص کے موہم ہو جاتے ہیں ـ اور حضور کو اور انبیاء پر فضیلت دینے میں اکثر عنوان نہایت گستاخانہ ہو جاتا ہے بات یہ ہے کہ انبیاء میں اور حضور میں کامل اور اکمل بلکہ اکمل اور اکمل الکاملین کا تفاوت ہے ـ کامل اور ناقض کا تفاوت نہیں بات یہ ہے کہ ایک فضائل تو ہیں منصوص ان کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں اور ایک ہیں مستنبط اس میں سخت احتیاط کی حاجت ہے انبیاء علیہم السلام کے تفاضل کا مسئلہ نہایت ہی نازک ہے اور مصنفین اسی کو بڑے زور سے قیاس کی بناء پر بگھارتے ہیں ـ میں اس کے متعلق ایک معیار بیان کیا کرتا ہوں کہ اگر فرضا تمام انبیاء علیہم السلام مع حضورؐ کے سب ایک جگہ جمع ہوں تم یہ سوچو کہ وہ اپنے مضامین تفاضل کے متعلق اس مجلس میں بھی سب حضرات کے سامنے پڑھ سکتے ہو یا کہہ سکتے ہو ـ اس معیار کو مستحضر کر کے وہی کلام منہ سے نکلا لو جس کو سب کے سامنے بلکہ حساب کے روز حق تعالی کے سامنے بھی عرض کر سکو یہ ایک مراقبہ ہے یہ میں نہیں کہتا کہ نیت بھی تنقیص کی ہے مگر دیکھ لیجئے کہ اس کا مدلول کیا ہے ـ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ ہمارے حضرت حاجی صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ ایک چشتی اور ایک قادری میں جھگڑا ہوا کہ حضرت غوث پاک کا مرتبہ افضل ہے یا خواجہ اجمیری صاحب کا حضرت نے فیصلہ فرمایا کہ بھائی یہ جھگڑے کی بات نہیں قادریوں کے تو حضرت غوث پاک باپ ہیں اور خواجہ صاحب چچا ـ اور چشتیوں کے حضرت خواجہ صاحب باپ ہیں اور حضرت غوث صاحب چچا تعلق خواہ باپ سے زیادہ ہو مگر تنقیص چچا کی بھی جائز نہیں ـ ان قادری صاحب نے کہا کہ جب حضرت غوث پاک نے فرمایا قدمی ھذہ علی رقاب اولیاء اللہ ( میرا یہ قدم اولیاء اللہ کی گردنوں پر ہے ) تو حضرت خواجہ صاحب نے گردن جھکا دی اور فرمایا بل علی راسی و عینی (بلکہ میرے سر آنکھوں پر 12) تو اس میں خود خواجہ صاحب نے اقرار