ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
اس پر حضرت والا نے ہار کی مناسبت سے مزاحا فرمایا ـ گلوگیر بھی ہوتا اور برادری کی جیت ہوتی اور انکی ہار ـ یہ لڑکی کی ماں میرے بڑے گھر میں کی حقیقی خالہ ہو گئی تھیں اسلئے میں بھی ان کو عرفا خالہ ہی کہتا تھا میں نے ان سے پوچھا کہ لڑکی کو رخصت کس وقت کروگی کہنے لگیں بھائی صبح کو جلدی تو رخصت نہیں ہو سکتی اسلئے کہ جلدی میں نہ کچھ کھاؤ گے اور نہ کچھ ٹھیرو گے میں نے کہا کھانا پکا کر ساتھ کر دو جہاں بھوک لگے گی کھالیں گے اور ٹھہرنے کی کوئی ضرورت نہیں ـ جب انہوں نے پھر اپنی رائے کا اعادہ کیا تب میں نے کہا بہت اچھا جب تم رخصت کرو گی ہم اسی وقت چلے جائیں گے لیکن یہ بات یاد رکھو کہ اگر دیر سے رخصت کیا تو نماز ظہر کا وقت راستہ میں ہوگا اس لئے کہ نو کوس جگہ ہے اور میں اپنے اہتمام میں لڑکی کی نماز قضا ہونے نہ دوں گا اور بلا عذر کے بہلی میں نماز ہو نہیں سکتی تو لڑکی کو بہلی سے اترنا پڑے گا اور یہ بھی تم سمجھتی ہو کہ لڑکی نئی نویلی ہو گی پہنے اوڑھے ہو گی عطر تیل خوشبو وغیرہ بھی لگا ہوگا اور یہ مشہور ہے کہ کیکر وغیرہ کے درخت پر بھتنی وغیرہ رہا کرتی ہیں سو اگر کوئی بھتنی چپٹ گئی تو میں ذمہ دار نہیں چونکہ عورتوں کے مذاق کے موافق گفتگو تھی سمجھ میں آ گئی کہنے لگیں نہ بھائی میں نہیں روکتی جب تمہارا جی چاہے جا سکتے ہو ـ میں نے کہا کہ بعد نماز فجر فورا ہی سوار کر دو انہوں نے قبول کر لیا ـ اب جب صبح ہوئی چلنے کا وقت ہوا تو ایک رسم ہے بکھیر کی دلہن کی رخصت کے وقت بستی کے اندر کچھ روپیہ پیسہ کی بکھیر کی جاتی ہے میں نے یہ کیا کہ کچھ روپیہ مساکین کو تقسیم کر دیا اورکچھ مساجد میں دیا محض اس وجہ سے کہ لوگ بخل و دنائت کا شبہ نہ کریں ـ اس سادگی کے متعلق یہ روایت سنی گئی کہ لوگ کہتے ہیں کہ شادی اس کو کہتے ہیں قلب کے اندر تازگی شگفتگی انشراح معلوم ہوتا ہے یہ دنیا داروں نے کہا واقعی شریعت پر عمل کرنے سے ایک نور پیدا ہوتا ہے ـ اب ولیمہ کا قصہ سنیے میں نے کسی کی دعوت نہیں کی کھانا پکوا کر گھروں پر بھیج دیا ایک بی بی نے کھانا واپس کر دیا کہ یہ کیسا ولیمہ ؟ میں نے کہا نہیں قبول کرتی ان کی قسمت جانے دو ان کا خیال یہ تھا یہ منائیں گے خوشامد کریں گے مگر ہمیں ضرورت ہی کیا تھی گھر سے کھلائیں اور الٹی خوشامد