ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
بیان کر رہا ہوں اور ایک کام کی بات بیان کرتا ہوں جو یاد رکھنے کے قابل ہے وہ یہ کہ اس میں عبدیت زیادہ ہے کہ یہ سمجھ کر مانگے کہ یہ چیز ضرور ہم کو ملے گی اور ضرور ہی دیں گے ـ یہ بھی شان عبدیت کے لیے ایک لازم چیز ہے اور مانگنے کے آداب میں سے ہے آ گے انکو اختیار ہے کہ اگر بندہ کے لیے ایک لازم چیز ہے اور مانگنے کے آداب میں سے ہے آ گے انکو اختیار ہے کہ اگر بندہ کے لئے وہ مصلحت اور حکمت دیکھیں گے عطا فرما دیں گے ایک اور بات بیان کرتا ہوں مانگنے کے متعلق جب حق تعالے نے حکم فرمایا ہے تو خود اس کو بھی مقصود سمجھو تو مقصود دو ہوئے ایک وہ چیز جو مانگ رہے ہو دوسرے خود مانگنا بھی بلکہ نہ مانگنے پر اندیشہ ہے اسلئے کہ حکم مانگنے کا تھا اس میں استغنا سے کام لیا ـ بعض لوگ خود دعا کو مقصود سمجھتے ہیں اور حاجت کو مقصود نہیں سمجھتے غلطی ہے خود حضورؐ بعد طعام کے دعا میں یہ اضافہ فرمایا کرتے تھے غیر مودع ولا مستغنی عنہ ربنا یعنی ہم اس کھانے کو رخصت نہیں کرتے اس سے مستغنی نہیں اور صدہا حدیث ہیں جن میں حضورؐ سے حاجتیں مانگنا ثابت ہے تو ایسی چیز تفویض کے خلاف کیسے ہو سکتی ہے مانگنے کو تفویض کے خلاف سمجھنا سخت غلطی ہے گو اجتہادی ہے جس کا سبب غلبہ حال ہے انہیں بعضے اہل دعاء کی نسبت حافظ کا یہ شعر پڑھ دیتے ہیں ؎ شب تاریک و بیم موج و گرد ابے چنیں ہائل ٭ کجا دانند حال ماسبک ساراں ساحل ہا ( اندھیری رات ہے موج کا خوف ہے اور ایک ہولناک گرداب ہے ( ان حالات میں ہم دریا کا سفر کر رہے ہیں تو ) جو لوگ آرام سے کنارہ دریا پر کھڑے ہیں ان کو ہماری حالت کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے 12) مگر خوب سمجھ لو کہ محقیقن اہل دعا جس ساحل پر ہیں وہ ادھر کا ساحل مراد ہے جو عبور دریا کے بعد ملا ہے ادھر کا نہیں جو خوض فی البحر سے پہلے ملتا ہے اس کو تو وہ طے کر چکا ہے وہ کجا دانند میں نہیں آ سکتا اگر اس طرف والے کا حال کھل جائے تو خود معترض یہ کہنے لگے ؎ جملہ عالم زیں سبب گمراہ شد ٭ کم کسے زا بدال حق آگاہ شد گفت اینک ما بشر ایشاں بشر ٭ ما او ایشاں بستہ خوابیم و خور ( تمام عالم عارفین کو نہ پہچاننے کی وجہ سے ہی گمرہ ہوا ـ ( کہ انہوں نے ان حضرات