ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
عرض کیا کہ غلطی ہوئی حضرت سے معافی چاہتا ہوں فرمایا کہ معاف ہے خدانخواستہ انتقام تھوڑا ہی لے رہا ہوں آپ تو سمجھ دار ہیں آپ سے ایسی بات ہو تعجب ہے ـ یہ یاد رکھئیے کہ زیادہ بولنا یہ بھی ایک مرض ہے پھر دوسروں کی طرف خطاب کر کے فرمایا کہ جو سوال مولوی صاحب نے کیا ہے ایک غیر اختیاری امر کے متعلق سو ایسے امر میں کسی کو کیا دخل ہمیں تو یہ کرنا چاہئیے کہ جو حکم ہے اس کے ادا کرنے کی فکر میں لگے رہیں اور ان ہی چیزوں کی طلب کرنا چاہئیے جو اختیاری ہیں اور مامور بہ ہیں اور جو مامور بہ نہیں ان کی فکر ہی عبث ہے ایسی چیز کے ملنے نہ ملنے کی مصلحت کس کو معلوم اس کو تو حق تعالی ہی جانتے ہیں کہ کس کے لئے کیا مفید ہے اور کس کے لیے کیا مضر ہے جو عطا فرمائیں ـ وہی اس کے لیے مفید ہے حق تعالی نے ہر چیز کے اندر حکمت اور مصلحت رکھ دی ہے خواہ عطاء ہو یا منع ہو ـ اسی لیے فرماتے ہیں ـ ولا تتمنوا ما فضل اللہ بہ بعضکم علی بعض یہ مسئلہ قرآن پاک نے طے فرما دیا ہے یعنی تم ایسے کسی امر کی تمنا مت کرو ـ جس میں اللہ تعالی نے بعضوں کو بعضوں پر (وہبی طور) پر فوقیت بخشی ہے آ گے فرماتے ہیں للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنساء نصیب مما لکتسبن یعنی مردوں کے لیے ان کے اعمال کا حصہ ثابت ہے اور عورتوں کے لیے ان کے اعمال کا حصہ ثابت ہے پس جب موہوب میں دخل نہیں تو کیوں پیچھے پڑے اور فرماتے ہیں واسئلواللہ من فضلہ یعنی اللہ تعالے سے اس کے فضل کی درخواست کیا کرو ۤ یہ فرما کر تعب سے بچایا ہے کہ اگر ایسی چیز کو جی ہی چاہے تو مانگ لو تحصیل کے درپے مت ہو ان اللہ کان بکل شئی علیما یعنی بلاشبہ اللہ تعالے ہر چیز کو خوب جانتے ہیں ـ دیکھئے جذبات کو کا نہیں یہ بھی گوارانہ فرمایا کہ جذبات کو روکا جائے کیا ٹھکانہ ہے حق تعالے کی اس رحمت کا یعنی اگر جی چاہے مانگ لو ـ اگر مناسب ہو گا دیدیں گے ورنہ خیر ! تو