ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
لوگ ایسی باتوں میں یا ایسے معاملات میں بوجہ بے خبری کے حقیقت کو نہیں پہنچتے اسباب کو دیکھتے ہیں آثار کو نہیں دیکھتے ـ اسباب کا دیکھنا نہیں ـ بلکہ دیکھنا آثار کا ہے جیسے اگر کوئی مجلد اور ضخیم قرآن شریف سے کسی کو ہلاک کر دے کیا یہ جائز ہو جائیگا ـ اب اگر قرآن شریف سن کر نفسانی کیفیت پیدا ہو تو وہ محمود نہ ہو گی ـ مثلا کسی امرد سے قرآن شریف سنا اس کی آواز یا صورت سے قلب میں ایک کیفیت پیدا ہوئی تو یہاں اسباب کو نہ دیکھیں گے آثار کو دیکھیں گے اور ظاہر ہے کہ وہ کیفیت یقینا نفسانی ہو گی ـ ایسے ہی سماع کو سمجھ لیا جائے اس کی بھی حدود ہیں ہر شخص کو جائز نہیں جیسا کہ آجکل ہر کس و نا کس کو اس میں ابتلاء ہے شیخ شیرازی اسی فرق کو کہتے ہیں کہ ؎ سماع اے برادر بگویم کہ چیست ٭ مگر مستمع را بدائم کہ کیست ( اے بھائی سماع کا حکم تو میں تم کو بتاؤں کہ کیا ہے مگر (پہلے) سننے والے کو معلوم کروں کہ کون ہے ـ 12) مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ زندہ دلاں مردہ تناں را رواست ٭ مردہ دلاں زندہ تناں را خطا ست ( جن کے دل ( بوجہ تعلق مع اللہ کے ) زندہ ہوں اور بدن مردہ ہوں ان کے لئے ( سماع ) جائز ہے اور جن کے دل مردہ اور تن زندہ ہوں ان کو سننا غلطی ہے ـ 12) سلطان نظام الدین قدس سرہ اس کیلئے چار شرائط بتاتے ہیں ـ سامع ، مسمع ، مسموع ، آلہ سماع ـ فرماتے ہیں ـ سامع از اہل دل باشد از اہل ہوی و شہوت نباشد ٭ مسمع مرد تمام با شد زن و کو دک نباشد مسموع مضمون ہزل نباشد ٭ آلہ سماع چنگ ورباب درمیان نباشد ( سننے والا اہل باطن ہو ـ اہل ہوی نفسانی واہل شہوت نہ ہو ـ سنانیوالا پورا مرد ہو عورت یا بے ریش لڑکا نہ ہو ـ سننے کی چیز کوئی بے ہودہ مضمون نہ ہو ـ آلہ سماع باجے گا جے نہ ہوں ) ـ