ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
حضرت مولانا سے اجازت لی ـ پھر فرمایا کہ ہم لوگ طالب علم ان مجذوب سے بعض کفار کیلئے بد دعا کرایا کرتے تھے مگر وہ کبھی جواب نہ دیتے صرف یہ کہہ دیتے کہ خیر باشد خیر باشد پھر وہ مر گئے ـ بعد میں اپنے بعض بزرگوں سے معلوم ہوا کہ وہ بعض کفار کے طرفدار تھے اس طرفداری پر فرمایا کہ مجذوبین کی مثال ملائکہ کی سی ہے کہ وہ کفار کی بھی تربیت کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں یہ بھی فرمایا کہ وہ گو اس عالم کے اعتبار سے بے سمجھ ہوتے ہیں مگر ان کو اس سمجھ کی ضرورت نہیں دوسری سمجھ کی ضرورت ہے وہ ان میں ہوتی ہے اور میں نے جو اس عالم کے اعتبار سے سمجھ کی نفی کی ہے ـ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس جماعت میں عقل نہیں ہوتی گو حواس درست ہوں جیسے گھوڑے میں مثلا عقل نہیں ہوتی مگر حواس ہوتے ہیں ـ یا بچہ کی مثال بلوغ سے پہلے کہ اس وقت عقل نہیں ہوتی مگر حواس ہوتے ہیں تو سلامت حواس مذوبیت کے منافی نہیں ـ نہ اس سلامت حواس پر نماز وغیرہ کے فرض ہونے کا مدار ہوتا ہے اس کی فرضیت کیلئے عقل شرط ہے پس مجنون اسی طرح مجذوب عقل نہ ہونے کی وجہ سے احکام شرع کا مکلف نہیں ہوتا باقی ان دونوں جماعت میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے ـ یہ بہت ہی نازک مقام ہے کہ ہر مجذوب اور مجنون میں فرق کر لیا جائے مگر اس کا ظنی معیار یہ ہے کہ اس مجذوب کے زمانہ کے صلحاء اتقیاء کا جو برتاؤ اس کے متعلق ہو وہ متعبر ہے ـ عوام کا خیال اس بارہ میں معتبر نہیں ـ یعنی اس زمانہ کے مشائخ جو اس کیساتھ برتاؤ کریں احترام کا یا اعراض کا وہی دوسروں کو کرنا چاہئے اپنی رائے سے عوام کچھ نہ کریں پھر اسی سلسلہ میں فرمایا کہ اول تو اس جماعت سے کوئی امید نہیں نفع کی نہیں رکھنا چاہئے حتی الامکان ان لوگوں سے الگ ہی رہنا مناسب ہے کیونکہ ان کو عقل تو ہوتی نہیں اس لئے ان سے اندیشہ ضرر ہی کا غالب ہوتا ہے ـ ایک مولوی صاحب نےعرض کیا کہ حضرت اس کی حقیقت کیا ہے یہ جذوب کیسے ـ