ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
|
نہیں سکتا ـ مگر دوسری صورت ممکن ہے کہ آپ کی بیوی کو میں اپنی بیٹی بنا لوں ـ سو میں آپ کی بیوی کو اپنی بیٹی بناتا ہوں وہ میری بیٹی اور میں اس کا باپ ـ پھر یہ توجیہ وقتی ہی نہ تھی ـ بلکہ تا زندگی باپ بیٹی اور داماد ہی کا سا برتاؤ رکھا بلانا لینا دینا سب اسی طرح رکھا تو یہ حوصلہ بڑے ہونے کے سبب تھا ـ گو وہ بڑائی دنیوی ہی تھی ـ یہ حکایت سن کر ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت نے یہ حکایت سنی ہے یا لکھی دیکھی ہے فرمایا سننا اور لکھی ہوئی دیکھنا اس میں فرق ہی کیا ہوا اس لئے کہ وہ لکھی ہوئی بھی تو کوئی سن کر ہی لکھتا ـ دوسری ایک حکایت انہیں کی یاد آئی کہ ایک مرتبہ علی گڑھ کے اسٹیشن پر ریل میں سر سید سوار ہوئے اسی ڈبہ میں ایک اور صاحب پہلے سے سوار تھے انہوں نے ان سے دریافت کیا کہ یہ کونسا شہر ہے سر سید بولے کہ علی گڑھ یہ سن کر وہ صاحب کیا کہتے ہیں کہ وہی علی گڑھ جہاں سر سید ( ایسا تیسا ) رہتا ہے سر سید کہتے ہیں کہ جی ہاں ! وہی علی گڑھ وہ صاحب کہتے ہیں کہ وہ تو بڑا ہی ایسا ہے ویسا ہے خوب برا بھلا کہا اس نے بڑا ہی دین کو نقصان پہنچایا سر سید نے کہا جی ہاں وہ ایسا ہے ـ یہ صاحب اور زیادہ کھلے اور کئی اسٹیشن تک تبرا کرتے چلے گئے ـ سر سید کو ذرہ برابر تغیر نہیں ہوا ـ تصدیق کرتے رہے ـ آخر ایک اسٹیشن پر ان تبرا کرنے والے صاحب نے کھانا کھانے کے لئے نکالا جب کھانے بیٹھے تو ان کی بھی تواضع کی ـ سر سید نے جواب دیا کہ آپ کھائیں انہوں نے کہا کہ مصنوعی تواضع نہیں ـ آ جائیے ! سر سید نے پھر ٹالا انہوں نے پھر اصرار کیا کہ میری دل شکنی ہو گی ـ سر سید نے کہا کہ مجھ کو کچھ عذر ہے انکا اس پر بھی اصرار ہوا سر سید نے پھر کہا واقعی مجھ کو عذر ہے انہوں نے کہا وہ عذر کیا ہے ـ بتلائیے ! سر سید نے کہا کہ بتلانے کا نہیں ہے انہوں نے کہا کہ بتلانا ہوگا سر سید نے کہا کہ اگر بتلا دوں تو اس وقت تو آپ کھانا کھلانے پر مصر ہیں اور معلوم ہو جانے کے بعد تو شاید میری صورت دیکھنا بھی گوارا نہ کریں گے ـ انہوں نے کہا کہ توبہ توبہ ایسی کیا بات ہے اور آپ کیوں ایسا فرماتے ہیں ـ تب سر سید نے کہا کہ میں ہی ہوں وہ شخص جس پر آپ کئی اسٹیشنوں سے تبرا بھیجتے چلے آ رہے ہیں ـ یہ سن کر وہ