اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ ۱۹۶۶ سے آپ نے دارالعلوم سبیل الرشاد کے شعبہ حفظ کی کمان سنبھالی، اور ساری جوانی بچوں کو حافظ قرآن بنانے میں گزار دی۔ آپ طلبہ سے قرآن سنتے تو اس طرح سنتے کہ آپ کا سارا بدن کان بن جاتا، کیا مجال کہ کوئی طالب علم ایک لفظ غلط پڑھ کر آگے بڑھ جائے۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد ہزار سے متجاوز ہے ، جو ملک اور بیرونِ ملک دینی خدمات میں مشغول ہیں ،مثال کے طور پر حضرت مولانا محمد سیف الدین صاحب رشادی اور مولانا حنیف افسر عزیزی صاحب کا نام لیا جاسکتا ہے ۔
جب تک ہمت نے ساتھ دیا آپ برابر مدرسے کو وقت مقررہ پر حاضر ہوتے رہے ، اور شعبہ حفظ کی ذمہ داری کو نبھاتے رہے، اخیر اخیر عمر میں جب قویٰ مضمحل ہوگئے تو آپ نے اپنی ذمہ داریوں سے معذرت کرلی اور استعفیٰ پیش کردیا۔ اس کے باوجود آپ کا قرآن سے لگاؤ کم نہ ہوا تھا، ضعف ونقاہت کے باوجود آپ اپنے محلے کی مسجد مسجد بدر میں نماز میں حاضر ہوتے اور نماز کے بعد تلاوت ِ قرآن فرماتے ، آپ کا یہ معمول تاحیات جاری رہا۔
۲۰۰۸ کے مارچ کی سولہ تاریخ کو قرآن کا یہ مخلص خادم ہزاروں ہزار شاگردوں کو داغِ مفارقت دیتے ہوئے قرآن کے اتارنے والے الہ العالمین کے دربار میں حاضر ہوگیا۔ دارالعلوم سبیل الرشاد میں شاگردوں اور متعلقین کے ایک جمِ غفیر نے نماز جنازہ ادا کی ، اور عمر بن الخطاب کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ اللہ حضرت کے ہزاروں ہزارحافظ شاگردوں کی تلاوتِ قرآن کا ثواب انہی پہچا کر اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے ، آمین۔