آپ کا شمار دارالعلوم سبیل الرشاد کے اولین اساتذہ میں ہوتا ہے ، ۱۹۶۰ سے ۱۹۶۶ تک آپ دارالعلوم سبیل الرشاد میں بحیثیت مدرس خدمت انجام دیتے رہے، پھر کچھ حالات کی بناء پر آپ مدرسہ ضیاء العلوم بسونگڈھی تشریف لے گئے ،اسی دوران ۱۹۷۲ سے بارہ سال تک آپ مدرسہ رحمانیہ کمبی پور میں بھی صدر مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ، ناظمِ تعلیمات کے منصب پر فائز تھے۔ اس کے بعد ۱۹۸۴ میں آپ کو بڑے حضرت کی دعوت پر دوبارہ دارالعلوم سبیل الرشاد میں تدریس کی ذمہ داری سنبھالی، آپ کے سینکڑوں شاگرد ملک اور بیرونِ ملک مختلف دینی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ آپ دارالعلوم سبیل الرشاد میں استاذ ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے حضرت قبلہ کے ساتھ مرکزی دارالقضاء میں معین قاضی کی حیثیت سے بھی خدمت انجام دیتے رہے ، اور پھر بڑے حضرت کے وصال کے بعد آپ کو قاضی شریعت کا منصب تفویض کیا گیا، پھر آپ تا حیات مرکزی دارالقضاء کے قاضی رہے۔ ’’قاضی صاحب‘‘ کا لفظ آپ کے ساتھ ایسا پیوست ہوگیا تھا جیسے یہ آپ کا پیدائشی نام ہو۔ اور حق تو یہ ہے کہ آپ نے اس منصب کا حق ادا کردیا، آپ وقت کے بڑے پابند تھے ، کمبی پور سے جو کہ مدرسے سے تقریبا چالیس کلو میٹر دور ہے ، حضرت کوروزانہ صبح نو بجے دارالقضاء آنا ہوتا، ذاتی سواری بھی نہ تھی، لیکن حضرت سرکاری بسوں کے ذریعے وقتِ مقررہ پر مدرسہ حاضر ہوجاتے۔ کبھی اس سلسلے میں حضرت سے تاخیر نہ ہوئی ۔ آپ نے دارالقضاء کو کبھی اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہیں کیا، اس سلسلے میں اس درجہ احتیاط فرماتے کہ دارالقضاء سے واپسی کے وقت مقدمے کے کسی فریق کی سواری پر شہر جانا آپ نے کبھی گوارا نہ کیا۔ لوگوں کے اصرار کے باوجود معذرت کرتے ہوئے سرکاری بس میں چلے جاتے۔ دارالقضاء میں ہمیشہ متفکر بیٹھتے تھے اور کل ہونے