کام کے فقدان کا نتیجہ ہے کہ بعض ایسے ہیں جنہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ووٹنگ آئی ڈی کارڈ کہاں بنوایا جارہا ہے ۔ بعض ایسے ہیں جنہیں اتفاقیہ طور پر معلوم تو ہوگیا ہے کہ ووٹنگ آئی ڈی کارڈ کہاں بنایا جارہا ہے ، مگر یہ جاننابھی ان کے لیے وبالِ جاں بنا ہوا ہے ۔ ووٹنگ سنٹر کے چکر لگاتے لگاتے ان کی ایڑیاں گھس جاتی ہیں اور مختلف ناموں اور مختلف بہانوں سے ان کی آئی ڈی کارڈ بننے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں ۔
ان سب سے ہٹ کر ایک بڑی تعداد ایسوں کی ہے جنہیں ہر کام میں دیری کرنے کی عادت ہے ۔ صبح اٹھیں گے تو دیر سے ، رات سوئیں گے تو بھی تاخیر سے ، اور عین پولنگ کے دن ووٹ ڈالنا چاہیں گے تو یہ بھی تاخیر سے ۔ اور یہ تاخیر ہوتے ہوتے اس قدر ہوجاتی ہے کہ یا تو ان کا دل ، خود اپنے آپ کو پولنگ بوتھ تک پہنچا نہیں پاتا۔ یا بہ مشکل پولنگ بوتھ پر پہنچ بھی گئے تو لمبی قطار لگانے کے بعد جب اپنا نمبر آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے نام سے تو پہلے ہی ووٹ ڈالا جاچکا ہے ۔
علاوہ ازیں اقلیتی طبقے کی نمائندگی کرنے والے اداروں نے بھی اپنا سارا کام بس اسی کو سمجھ لیا ہے کہ اخباروں اور روزناموں کے ذریعے بیداری کے اشتہارات چھاپ دیے اور بس۔ اصل کام جو کرنے کا ہے وہ یہ ہے کہ ہر ادارے والا فیلڈ ورک میں اپنی مہارت بنائے۔ لوگوں کو صحیح راہ نمائی کی جائے ، کنڑی زبان سے واقف نہ ہونے والے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ ہونے دیا جائے ۔ ہر ووٹنگ آئی ڈی سنٹر پر اپنا ایک آدمی رکھا جائے جو ناموں کے غلط اندراج ، مذکر ومونث ، عمر، پتے وغیرہ غلط لکھنے میں ووٹنگ سنٹر کے عملے کی بدعنوانیوں پر روک لگا سکے ۔ ساتھ ہی ساتھ اقلیتوں کے ووٹ حاصل کرنے والی سیکولر پارٹیوں کو چاہیے کہ انتخابات میں اپنے امیدوار کا اعلان جلد از جلد