کہ…دعا تھی …جھاڑ تھا… پھونک تھا…ورد تھا… وظیفہ تھا… ذکر تھا…شغل تھا… تحنث (چلہ کشی) تھا … گریہ تھا…وجد تھا …حال تھا… کشف تھا… کرامت تھی… فقر تھا…فاقہ تھا… زہد تھا … قناعت تھی ۔
مگر سچ تو یہ ہے وہ ؐ سب کچھ تھا اس لیے کہ وہ ؐ سب کے لیے آیا تھا ، آئندہ جس کوکسی کو چلنا تھا ، جہاں کہیں چلنا تھا ، جس زمانے میں چلنا تھا؛ اسی روشنی میں چلنا تھا‘‘(النبی الخاتم ص۱۰۱)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس خلق عظیم پر فائز تھے ، دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر تھے ، اور آپ کے یہ اخلاق حسنہ آپ کی فطرتِ شریفہ کا خاصہ تھے ، یہی وجہ ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کے اخلاقِ حمیدہ کا تذکرہ سن کر آپ سے نکاح کا جو ارادہ ظاہر کیا وہ نبوت کے بعدبلکہ نہیں نبوت سے پہلے کا واقعہ ہے ۔ نیز جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو غار حرا میں نبوت ورسالت کی زینت بخشی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ہیبت وجلال سے خوفزدہ اپنے گھر پر پہونچے توحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے آپ کو ان الفاظ سے تسلی دی تھی:
(آپ فکر نہ کریں )خدا کی قسم ، خدا آپ کو کبھی رسو ا نہیں کرے گا، کیونکہ آپ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں ، سچ بولتے ہیں ، (ایک روایت کے مطابق ) امانتیں ادا کرتے ہیں ، بے سہارا اور لاچار لوگوں کا بار برداشت کرتے ہیں ،مہمان نوازی کرتے ہیں اور نیک کاموں میں مدد کرتے ہیں ۔ (بخاری شریف )
آپ کے اوصاف حمیدہ کا ذکر بھلا مجھ سے کیا ہو، کلکِ ناتواں اپنی اتنی جسارت پر از حد شرمندہ ہے ۔ خدا ہمیں آپ کی سنتوں کو جان جان کر عمل کرنے کی توفیق دے اور نمائش اورمحض قول سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے اعمال کو سدھارنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔