منظر صاحب کو سب سے زیادہ تعجب حضرت امیر شریعت کے دستخط پر ہوا ہے ، مگر یہاں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے ، میں مانتا ہوں کہ وہ قوم کے امیر ہیں اور ساری ریاست کے مسلمانوں کو لے کر چلنا ہے ، مگر امیر بھی ایک انسان ہی ہوتا ہے نہ کہ کوئی دوسری مخلوق ، ٹھیک ہے ، لوگوں کو سمجھانا ان کی ذمہ داری ہے ، مگر لوگوں کو سمجھانے کے باوجود لوگ اپنے مسلک اور مکتب فکر کو سامنے لا کر ہی امیر کو امیر تسلیم کریں تو …؟
کسی تعمیری کام میں اختلاف ہوتو لوگوں کو چاہیے کہ اپنے امیر کی طرف رجوع کریں اور اپنے مسائل کا حل نکال کر انہیں حل کرلیں ، مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے ، آج لوگ اپنے اثر ورسوخ کے گھمنڈ میں نہ امارت شرعیہ ہی سے رجوع ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنے امیر سے رجوع کرتے ہیں ۔ یہ بھی واضح کردوں کہ امیر نہ کسی گروہ کے ساتھ ہوتا ہے نہ کسی گروہ کی نفی کرتا ہے ، ہاں البتہ آپ ہی غورکریں کہ ایک گروہ اپنے نامناسب کاموں کی وجہ سے عوام اور ساری امت کی نظروں سے گرجائے تو اس کی تائید امیر کیوں کرے ۔
اس بیان میں امت کے شیرازے کوبکھیرنے والی کوئی بات نہیں ہے ۔ علماء کرام نے امت کو جوڑنے ہی کی بات کی ہے نہ کہ توڑنے والی بات ۔ آپ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ یہ مقتدر علماء کرام امت کے شیرازے کو جوڑنے ہی کاکام کرتے ہیں ، آج ان بزرگ علمائے دین نے اپنے مسلک اور اپنے مکتب فکر کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد واتفاق سے کام کررہے ہیں ۔ اگر موصوف کے خیال کے مطابق ’’ یک نہ شد دو شد‘ ‘ ہوتے تو جو کام انجمن اصلاح معاشرہ کررہی ہے ، اس میں بھی مختلف علماء اپنے اپنے مسلک اور مکتب کے ساتھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناکر الگ بیٹھ جاتے۔
مطبوعہ روزنامہ سالار16/09/1998