کسی امتی کو خوش کرنے کی نیت سے اس کی کوئی حاجت پوری کرتا ہے وہ در اصل مجھے خوش کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ (مشکوٰۃ )
مسلمانوں میں خدمت خلق کا شوق بہت زیادہ موجود ہے ۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اس کا مظاہرہ مسلم معاشرے میں اکثر ہوتا رہتا ہے ۔ شہر کے ہر محلے میں امدادی انجمنیں اور فلاحی ادارے قائم کیے گئے ہیں ۔ اگر ان میں محلے والوں کو کچھ پریشانیاں ہوتی ہیں تو ان کا حل تلاش کیا جاتا ہے ۔ یہ یقینا ایک خوش آئند بات ہے مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض خود ساختہ سماجی کارکنوں نے اس مقدس شعبہ اور اس عظیم کار خی کو بھی ایک کاروبار بنا لیا ہے اور اپنے مفاد اور ذاتی اغراض کی خاطر اس کو استعمال کرنے لگے ہیں ۔ یہ خود ساختہ خادمان خلق صرف دنیوی نفع اور اپنے ذاتی مفاد کی خاطرلوگوں کی خدمت کرتے ہیں اور ان کے معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں ، بلکہ لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی کا معاملہ کرتے ہیں ، وزراء ، امراء سرکاری اور پولس افسران سے اپنے تعلقات کا رعب جھاڑ کر بے سہارا غریب لوگوں کو جو ان کے پاس اپنی حاجتیں اور پریشانیاں لے کر آتے ہیں ان کے خون پسینہ سے کمایا ہوا زندگی بھر کا سرمایہ ہڑپ کرجاتے ہیں ۔
عوام کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایسے مفاد پرست سوشل ورکروں کے پیچھے نہ پڑیں جن کو قرآن سے لگاؤ نہ حدیث سے کچھ واسطہ ، نہ خوفِ خدا نہ فکرِ عقبیٰ ۔ اگر کچھ مسائل اور پریشانیاں ہوں تو اہل علم حضرات کی طرف رجوع ہوں اور ان کے مشورے سے دینی فلاحی اداروں کے ذریعہ اپنے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں ۔
مطبوعہ روزنامہ سالار 30/05/1998