اپنے ضمیر کی آواز پر چل سکتا ہے ، کسی مذہب پر عقیدہ رکھ سکتا ہے ، اس پر عمل پیرا ہوسکتا ہے اور اس کی تبلیغ کرسکتا ہے ۔ مذہبی کاموں (عبادت وغیرہ) کے لیے ادارے یا انجمن قائم کرسکتا ہے ، اپنے مذہبی معاملات کا انتظام کرسکتا ہے ،اور اس کے لیے ہر طرح کی جائیداد منقولہ وغیر منقولہ حاصل کرسکتا ہے اور قانون کے مطابق اس کا بند وبست کرسکتا ہے ۔
دستور ہند کی ان ضمانتوں کے پیش نظر ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی بی جے پی سرکارکی طرف سے پاس کردہ عبادت گاہیں اور مذہبی مقامات ریگولیشن ایکٹ بل یقینا دستور ہند کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس بل کا اصل نشانہ کون ہیں (اگرچہ کہ یہ واضح ہوچکا ہے کہ اس بل کے ذریعے فسطائی ذہنیت کی حامل بی جے پی حکومت مسلمانوں ہی کو نشانہ بنانا چاہ رہی ہے ) ملک کے ہر شہری کی یہ ذمہ دار ی ہے کہ آئین ہند کی حفاظت کے لیے کمر بستہ ہوکر سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر دستور کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف احتجاج کرے ، خصوصاً مسلم دانشوراور رہنمایانِ قوم کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی کریں کہ دستور کی جن دفعات کا تعلق ہندوستانی مسلمانوں سے یا ملک کی اقلیتوں سے ہے ، ان کے نفاذ میں کس حد تک دیانت داری برتی جارہی ہے ، نیز ملک میں کوئی ایک بھی قانون ایسا نہ بننے پائے جو مسلمانوں کے مفادات کے خلاف ہو یا اس میں ان کے جذبات اور ضروریات کو ملحوظ نہ رکھا گیا ہو ۔
یہ یقینا ایک خوش آئند بات ہے کہ ہمارے معزز علماء کرام نے اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے کا بیڑا اٹھایا ہے ۔ اب عام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ علماء کرام کے اس تعلق سے ہر اقدام کی تائید کریں اور حسب استطاعت اپنی نصرت ومدد فراہم کریں ۔
(مطبوعہ روزنامہ پاسبان26/04/2000)