پیش آیا جو کانگریس پارٹی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ بی جے پی اپنے فرقہ وارانہ نظریات اور فسطائی ذہنیت کی وجہ سے نہ کبھی خود اپنے بل بوتے پر حکومت چلانے کے قابل رہی اور نہ ہی آگے کبھی اس کو اتنی قوت حاصل ہونے کی امید ہے ،کیونکہ ہندوستان مختلف مذاہب ، تہذیبوں اور زبانوں کا ملک ہے ، یہاں کوئی ایک مخصوص نظریہ یا مذہب کی بنیاد پر حکومت قائم نہیں ہوسکتی۔ جنتا دل کا تو وجود ہی معدوم ہوتا چلا جارہا ہے ۔ ان سبھی حالات کی وجہ سے مختلف ریاستوں کی علاقائی جماعتیں اپنی اپنی ریاست میں مضبوط ہوگئیں ۔ اور اب یہ حالت ہے کہ بی جے پی نے تو مختلف علاقائی جماعتوں کا ایک قومی جمہوری اتحاد قائم کرلیا ہے اور کانگریس اپنی مضبوطی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود کچھ ریاستوں میں علاقائی جماعتوں کے ساتھ انتخابی سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہے ۔ اور کانگریس کے کئی لیڈورں نے بیانات بھی جاری کیے ہیں کہ اگر ضرورت پڑی تو کانگریس مرکز میں مخلوط حکومت قائم کرنے کے بارے میں غور کرسکتی ہے ۔ مگر یہ کھلی حقیقت ہے کہ ملک میں اس وقت ایسا سیاسی ماحول بنا ہوا ہے کہ کوئی بھی جماعت صرف اپنی قوت پرملک کو مستحکم حکومت فراہم کرنے کے قابل نہیں ہے ۔ کانگریس اور جنتا دل میں پھوٹ کے بعد ملک میں کئی چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتیں پیدا ہوگئیں ہیں اور ہر جماعت کا اپنے دائرے میں خصوصی اثر ورسوخ بھی ہے اور کئی علاقائی پارٹیاں بھی اس وقت اتنی قوی ہوچکی ہیں کہ کانگریس یا بی جے پی یا اور کسی پارٹی کو اپنے بل بوتے پر حکومت بنانا ناممکن ہوگیا ہے ۔ ان تمام حقائق سے یہ ظاہر ہے کہ ملک میں اس وقت یک جماعتی نظام حکومت کا دور ختم ہوچکا ہے اور آگے چل کر ملک کو مخلوط حکومتیں ہی استحکام فراہم کرسکتی ہیں ۔
(مطبوعہ روزنامہ سیاست 25/09/1999)