ہوں گی۔ مگر ایسا نہیں ہوپاتا، کیونکہ آپ حضرات دیکھتے ہوں گے کہ اگر کسی بھلے مانس نے کسی محلے میں کوئی ادارہ یا کمیٹی قائم کیا ، تنظیم بنائی تو فوراً اس کی مخالفت میں دوسرے دن دوسرا شخص ہمارا ہی آدمی وہ بھی ایک کمیٹی ، ادارہ قائم کرلیتا ہے ۔ اسی نااتفاقی کی وجہ سے آج مسلمان غیروں کی نظر میں کمزور ہے ۔ بہر کیف آپ خود یہ فیصلہ کریں کہ آنے والے انتخابات میں کس کو اپنا قیمتی ووٹ دینا ہے ، کیونکہ ایک منٹ کی غلطی کا خمیازہ پانچ سال تک بھگتنا پڑے گا۔ اس لیے غلطی کرکے پچھتانے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ پہلے ہی سوچ لیں کہ ہم غلطی کررہے ہیں یا صحیح آدمی کو ووٹ دے رہے ہیں ۔
انتخابات کے دنوں میں تو سیاسی لیڈران محلوں میں دورے پر دورے کرتے رہتے ہیں ، جھوٹے وعدے کرتے ہیں اور دوسروں کی حکومت پر تنقید کرتے ہیں ۔ پھر انتخابات کے بعد وہ امیدوار اس محلے کی طرف منھ پھیرکر بھی نہیں دیکھتا۔ اسی طرح فسادات میں بھی ایسے ہی رسمی طور پر اپنا چہرہ دکھا کر چلے جاتے ہیں ، چاہے وہ فسادات ایودھیا کے ہوں ، ہبلی کے ہوں ، بھدراوتی کے ہوں یا بنگلور (۷اکتوبر)کے ۔ اس لیے مسلمان سب متحد ہوکر اپنے گراں قدر ووٹ دیں تب ہمارے ووٹ کی قدر ہوگی اور ووٹ بعد میں کام آئے گا ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر ایک حلقے میں کوئی مسلمان امیدوار کھڑا ہوا ہے تو دوسرے مسلمان بھائی کو اس حلقے میں دوسری پارٹی کی طرف سے کھڑا ہونے کی سنگین غلطی نہیں کرنا چاہیے ، ورنہ ووٹ بٹ جائیں گے اور دشمنوں کا فائدہ ہوگا ، اس کے بعد کیا ہوگا یہ آپ حضرات خود جانتے ہیں ۔اگر ان مشوروں کا خیال رکھیں تو انشاء اللہ کامیابی وکامرانی ہمارے قدم چومے گی۔
(مطبوعہ روزنامہ سالار 14/10/1994)