کے لئے جو طریقہ اختیار فرمایا وہ دنیا والوں کے اور دیگر اقوام کے طریقے سے بالکل مختلف ہے ۔ دیگر اقوام میں خوشی سے مراد ناچ گانا ہوتا ہے ، ہنگامہ آرائی کی مختلف شکلوں سے لوگ خوشی کا اظہار کرتے ہیں لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھ کر یہ ثابت کردیا کہ بندۂ مؤمن عبادت کی زیادتی سے اپنی روح کو خوشی پہنچاتا ہے اس لئے کہ روح کی غذا عبادت ہی ہے ، ساتھ ہی ساتھ ان ارواح کو بھی خوشی ہوتی ہے جن کے توسط سے یہ روزہ رکھا گیا ہے ۔
صرف خوشی کے موقع پر ہی نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شدید آزمائش کے موقع پر بھی امت مسلمہ کو یہ تعلیم دی کہ نوحہ خانی اور واویلا مچانے کے بجائے عملی زندگی کو سدھار کر آگے بڑھنے کی مثبت سوچ اختیار کرنا چاہئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کااکلوتا نرینہ لڑکا حضرت ابراہیم ؓ کی وفات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی ارشاد فرمایا تھا کہ آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور دل غمزدہ ضرور ہے لیکن ہم وہی کہیں گے جو ہمارے پروردگار نے فرمایا ۔ بڑی ناداں سمجھی جائے گی وہ قوم جو دشمن پر غصے کا اظہار خود اپنی جان و مال کی ہلاکت کے ذریعہ سے کرنے لگے ۔