کے کارِ خیر میں استعمال کرنا چاہتے ہیں ، اگر ہم محلے کے ذمہ دار حضرات ، ان کی خدمت میں پہنچ کر ساری تفصیلات پیش کرکے ان صاحب خیر حضرات کی سرپرستی میں کام کریں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ محلے میں کوئی بھی گھر ایسا نہ ہوگا جس میں بچہ اسکول کو جاتا نہ ہو ، اور ادارے کے ذمہ دار حضرات بچوں کی کتابیں اور یونیفارم اور دوسری ضروریات کا سامان مہیا کرنے کی فکر کریں تو انشاء اللہ آنے والی نسل ان کی خدمات کو فراموش نہیں کرے گی ، اس کام سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اردو کی بقااور اس کی حیات کا یہ کام ایک ذریعہ ہوگا ، ورنہ ناممکن نہیں کہ اردو چند سالوں کے بعد دنیا سے ناپید ہوجائے اور اس کا تذکرہ صرف تاریخ کی کتابوں میں باقی رہ جائے ۔ لہٰذا میری شہر کے ہر محلے کے ذمہ دار حضرات سے گذارش ہے کہ جلد از جلد اردو اسکولوں کو اڈاپٹ کریں ۔ مزید تفصیلات کے لیے مذکورہ اداروں کے ذمہ داروں سے رابطہ قائم کریں ۔ کاہلی اور سستی کریں گے تو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
والا معاملہ ہوجائے گا۔
مطبوعہ روزنامہ سالار 23/06/2001