رمضان کی باجماعت ابتداء ہوئی تو صحابہ میں اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ ہر چار رکعت کے بعد تھوڑی دیر آرام کرلیا جائے ، اس لیے کہ تراویح کی رکعتوں میں بہت طویل قیام ہوتا تھا ، چنانچہ حضرت سائب بن یزید کہتے ہیں کہ وہ لوگ تراویح کی رکعتوں میں کئی سو آیتیں پڑھتے تھے اور حضرت عثمانؓ کی زمانۂ خلافت میں شدتِ قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں کا سہارا لیتے تھے ۔ (بیہقی) بہرحال ترویحہ وہ نشست ہے جس میں کچھ راحت کرلی جائے اور چونکہ صحابہ کرام قیام رمضان کی چار رکعتوں پر سلام پھیرنے کے بعد تھوڑا بیٹھتے اور دعا پڑھتے تھے ، اس طرح کچھ آرام مل جاتا تھا ، اس لیے قیام رمضان کی چار رکعتوں کو ایک ترویحہ کہا جانے لگا۔اور اس کا مجموعہ تراویح کہلایا۔
لفظ تراویح کی اس بحث سے ایک اہم نکتہ بھی واضح ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تراویح کا صیغہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تراویح کی رکعات آٹھ سے زائدہ ہیں ، اس لیے کہ چار رکعت ایک ترویحہ ہے تو آٹھ رکعت ترویحتین ہوئے لہٰذا بارہ او ر اس سے زائدرکعات ہی تراویح کہلائیں گے ۔ چونکہ پوری تراویح میں پانچ ترویحے ہیں اس لیے ان کا مجموعہ تراویح کہلاتا ہے ۔
رکعت تراویح کی تعداد :۔تراویح کے بارے میں علماء محققین کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل سے تراویح کی رکعتوں کا کوئی عدد متعین نہیں ہوتاکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس ہی رکعت تراویح پڑھی ہوں ، نہ اس سے کم نہ اس سے زائد۔ چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں کہ علماء نے تراویح کی رکعت میں اختلاف کیا ہے اور اگر یہ رکعتیں (تراویح کی متعین رکعتیں ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہوتیں تو یہ اختلاف نہ ہوتا۔ (مصباح المصابیح) اس لیے