ومنہمک ہوجاتے ہیں ، وہ دنوں کو روزہ رکھ کر ذکر وتلاوت میں گذارتے ہیں اور راتوں کا بڑا حصہ تراویح وتہجد اور دعا واستغفار میں بسر کرتے ہیں اور ان کے انوار وبرکات سے متاثر ہو کر عام لوگوں کے قلوب بھی رمضان المبارک میں عبادت اور نیکیوں کی طرف راغب اور بہت سے گناہوں سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں تو اسلام اور ایمان کے حلقے میں سعادت اور تقویٰ کے اس عام رجحان اور نیکی اور عبادت کی اس عام فضاء کے پیدا ہوجانے کی وجہ سے وہ تمام طبیعتیں جن میں کچھ بھی صلاحیت ہوتی ہے ، اللہ کی مرضیات کی جانب مائل اور گناہوں اور نافرمانی سے متنفر ہوجاتی ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس ماہ مبارک میں تھوڑے عمل کی قیمت اور دنوں کی بہ نسبت بہت زیادہ بڑھا دی ہے ۔ اس لیے ان سب باتوں کے نتیجے میں ان لوگوں کے لیے جنتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین ان کو گمراہ کرنے سے عاجز اور بے بس ہوجاتے ہیں ، ہر طرف نیکی کی فضا قائم ہوتی ہے ، اور پھر بندوں پر باری تعالیٰ کے عفووکرم کی بارش ہوتی ہے اور یومیہ ساٹھ ہزار خطاکاروں کی مغفرت فرما دی جاتی ہے ۔
بہرحال ان کی مغفرت وبخشش کا تعلق ان اہل ایمان سے ہے جو رمضان المبارک میں خیر وسعادت حاصل کرنے کی طرف مائل ہوں ۔ باقی رہے وہ کفار اور خدا فراموش ، غفلت شعار لوگ جو رمضان اور اس کے احکام وبرکات سے کوئی سروکار ہی نہیں رکھتے اور نہ اس کے آنے پر ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی آتی ہے ، بلکہ الٹا اعتراض کردیا جاتا ہے کہ روزہ وہ رکھے جس کے گھرکھانے کو نہ ہو، یا روزہ عرب کی غربت اور افلاس کے پیش نظر رکھوایا جاتا تھا، آج اس کی ضرورت نہیں ۔ تو ظاہر ہے کہ اس قسم کی بشارتوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ انہوں نے جب اپنے آپ کو خود ہی محروم کرلیا ہے اور بارہ مہینے شیطان کی پیروی پر مطمئن ہیں تو پھر اللہ کے یہاں بھی ان کے لیے محرومی وبدبختی کے سواء کچھ نہیں ۔
مطبوعہ : روزنامہ سالار 29/11/2001