بڑھانے کے لیے انہیں اڈاپٹ کیا۔
یہ اقدام مولانا کی علم دوستی کے علاوہ دینی حمیت کا بھی غماز ہے ۔ آج الحمد للہ شہر میں اکثر اسکولوں اور کالجوں میں جلسے ہوتے رہتے ہیں ، بڑے لوگ آتے ہیں اور تقریر کرکے چلے جاتے ہیں ۔ اگر اسکولوں کے ہر جلسے میں آنے والے بڑے بڑے سیاسی حضرات ، تاجر حضرات اپنی طرف سے ایک بچے کوبھی اڈاپٹ کرائیں اور اس کے تعلیمی اخراجات برداشت کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ قوم کا یہ سرمایہ ، یہ طلبہ ضائع نہیں ہوں گے ، اور یہی بچے آگے چل کر قوم کے لیے بہت کچھ کرکے بتائیں گے ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بہت سے ذہین بچے (طلبہ) معاشی حالات کی مجبوری میں پریشان ہوکر تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر کسبِ معاش میں لگ جاتے ہیں اور ان معصوم بچوں کے والدین کے پاس پڑھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے میری شہر کے ہر صاحب استطاعت سے ادباً گزارش ہے کہ وہ اسکولوں اور مدارس میں جاکر استاذ یا اسکول کے ذمہ داروں سے مل کر حالات کا جائز ہ لیں اور کسی ایک طالب علم کی تعلیم کا ذمہ اپنے سر لیں ۔ جب ایک عالم یہ کام کرسکتا ہے تو شہر کے بڑے بڑے تاجر حضرات اور صاحب استطاعت حضرات کیا یہ کام نہیں کرسکتے ؟ ؟
(مطبوعہ )
روزنامہ سالار بنگلور 31/07/2001
روزنامہ سیاست 31/07/2001
روزنامہ سلطان 01/08/2001