تاریک فتنے اور قیامت کی علامات |
|
ثُمَّ رَدَّهَا عَلَيْهِ ثَلَاثًا، كُلَّ ذَلِكَ يُعْرِضُ عَنْهُ حُذَيْفَةُ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِ فِي الثَّالِثَةِ، فَقَالَ: «يَا صِلَةُ، تُنْجِيهِمْ مِنَ النَّارِ» ثَلَاثًا۔(ابن ماجہ :4049) نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے : بے شک اِس دین کے لئےآنا بھی ہے اور پیٹھ کر جانا بھی ہے (یعنی عروج بھی ہے اور زوال بھی)عروج یہ ہے کہ قبیلہ سارا کا سارا دین میں سمجھ بوجھ حاصل کرلے گا یہاں تک کہ سوائے چند ایک کے کوئی فاسق نہیں رہے گا ، دو فاسق بھی ہوں گے تو ذلیل ہوں گے، اگر زبردستی مل کر کچھ (دین کے خلاف )بولیں گے تو اُن کو خوب مارا جائے گا ۔ اور بے شک اِس دین کا زوال یہ ہے کہ پورا کا پورا قبیلہ بے رحم اور سنگدل ہوجائے گا ، سوائے چند ایک کے کوئی دین میں سمجھ رکھنے والا نہیں رہے گا ، دو دین کی سمجھ رکھنے والے بھی ہوں گے تو وہ ذلیل اور رسوا ہوں گے ، وہ دونوں اگر زبردستی مل کر کوئی (دین کی بات )کریں گے تو اُن پر ظلم ڈھایا جائےگا ۔ اِس امّت کے آخر کے لوگ اوّل کے اَسلاف پر لعنت کریں گے ،آپﷺنے ارشاد فرمایا : اچھی طرح سے سُن لو ! پھر اُن کے اوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پھٹکار پڑے گی ،یہاں تک کہ وہ کھلم کھلا شراب پئیں گے ، اُن کی حالت اِس قدر بد تر ہوجائے گی کہ راستہ چلتی ہوئی کوئی عورت کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے گی تو اُن لوگوں میں سے کوئی شخص اُٹھ کر(بدکاری کے لئے ) عورت کا دامن اِس طرح اُٹھائے گا جیسا کہ کسی دنبی کی دُم اُٹھاتے ہیں ،پس اُس وقت کوئی کہنے والا کہے گا کہ عورت کو لے کر دیوار کی اوٹ میں چلے جاؤ، وہ کہنے والا اُس دن اُن لوگوں میں اجر و ثواب کے اعتبار سے ایسا ہوگا جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق تمہارے درمیان مرتبہ رکھتے ہیں ، پس اُس دن جس نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا تو اُس کے لئے ایسے پچاس لوگوں کا اجر و ثواب کا ہوگا جنہوں نے مجھے دیکھا ، مجھ پر ایمان لائے ، میری اطاعت کی اور میری اتباع کی ۔ یعنی حضرات صحابہ کرام ۔ إِنَّ لِهَذَا الدِّينِ إِقْبَالًا وَإِدْبَارًا، أَلَا وَإِنَّ مِنْ إِقْبَالِ هَذَا الدِّينِ أَنْ تَفْقَهَ الْقَبِيلَةُ بِأَسْرِهَا حَتَّى لَا يَبْقَى إِلَّا الْفَاسِقُ، وَالْفَاسِقَانِ ذَلِيلَانِ فِيهَا، إِنْ تَكَلَّمَا قَهْرًا وَاضْطُهِدَا، وَإِنَّ مِنْ إِدْبَارِ هَذَا الدِّينِ، أَنْ تَجْفُوَ الْقَبِيلَةُ بِأَسْرِهَا، فَلَا يَبْقَى إِلَّا الْفَقِيهُ وَالْفَقِيهَانِ، فَهُمَا ذَلِيلَانِ إِنْ تَكَلَّمَا قَهْرًا وَاضْطُهِدَا، وَيَلْعَنُ آخِرُ الْأُمَّةِ أَوَّلَهَا، أَلَا وَعَلَيْهِمْ حَلَّتِ اللَّعْنَةُ حَتَّى يَشْرَبُوا الْخَمْرَ عَلَانِيَةً حَتَّى تَمُرَّ الْمَرْأَةُ بِالْقَوْمِ، فَيَقُومُ إِلَيْهَا بَعْضُهُمْ، فَيَرْفَعُ بِذَيْلِهَا كَمَا يُرْفَعُ بِذَنَبِ النَّعْجَةِ، فَقَائِلٌ يَقُولُ يَوْمَئِذٍ: أَلَا وَارِ مِنْهَا وَرَاءَ الْحَائِطِ، فَهُوَ يَوْمَئِذٍ فِيهِمْ مِثْلُ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فِيكُمْ، فَمَنْ أَمَرَ يَوْمَئِذٍ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَهَى عَنِ الْمُنْكَرِ فَلَهُ أَجْرُ خَمْسِينَ مِمَّنْ رَآنِي، وَآمَنَ بِي وَأَطَاعَنِي وَتَابَعَنِي۔(طبرانی کبیر:7807)عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ الله عَنْه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ إِقْبَالًا وَإِدْبَارًا وَإِنَّ لِهَذَا الدِّينِ إِقْبَالًا وَإِدْبَارًا، وَإِنَّ مِنْ إِقْبَالِ هَذَا الدِّينِ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ، حَتَّى إِنَّ الْقَبِيلَةَ لَتَفْقَهُ مِنْ عِنْدِ آخِرِهَا، حَتَّى لَا يَبْقَى إِلَّا الفاسق أو الفاسقان، فَهُمَا مَقْهُورَانِ، مَقْمُوعَانِ، ذَلِيلَانِ، إِنْ تَكَلَّمَا أَوْ نَطَقَا