تاریک فتنے اور قیامت کی علامات |
|
قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ دو بڑے عظیم الشان گروہ آپس میں لڑیں اور ان میں بہت سخت لڑائی ہو گی ، دعویٰ ان دونوں کا ایک ہی ہو گا اور یہاں تک کہ تیس کے قریب دجال جھوٹے پیدا ہوں گے ، ہر ایک ان میں سے یہ کہے گا کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور یہاں تک کہ علم اٹھا لیا جائے گا اور زلزلوں کی کثرت ہو گی اور وقت (یعنی دور ایک دوسرے سے) قریب ہو گا اور فتنے ظاہر ہو ں گے اور خونریزی کی کثرت ہو گی اور مال کی تم میں اس قدر کثرت ہو گی کہ جیسے بہہ رہا ہوگا یہاں تک کہ مال والا یہ چاہے گا کہ کوئی اس کے صدقہ کو قبول کرے اور جب کسی کے سامنے اسے پیش کر ے گا تو وہ کہے گا مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اور (قیامت قائم نہیں ہو گی) یہاں تک کہ لوگ لمبی لمبی عمارتوں کے بنانے میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے اور یہاں تک کہ آدمی قبر کے پاس سے گزرے گا اور کہے گا کہ کاش! میں اس کی جگہ (قبر میں) ہوتا یہاں تک کہ آفتاب مغرب کی جانب سے طلوع ہو گا ، پھر جب وہ طلوع ہو گا اور لوگ اس کو دیکھیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے اور وہ ، وہ وقت ہو گا جب کہ کسی شخص کو جو پہلے ایمان نہ رکھتا تھا یا جس نے اپنے ایمان کی حالت میں کوئی نیکی نہیں کی تھی ، ایمان لا نا نفع نہیں دے گا ۔لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَقْتَتِلَ فِئَتَانِ عَظِيمَتَانِ، يَكُونُ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ، دَعْوَتُهُمَا وَاحِدَةٌ، وَحَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، قَرِيبٌ مِنْ ثَلاَثِينَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ، وَحَتَّى يُقْبَضَ العِلْمُ وَتَكْثُرَ الزَّلاَزِلُ، وَيَتَقَارَبَ الزَّمَانُ، وَتَظْهَرَ الفِتَنُ، وَيَكْثُرَ الهَرْجُ: وَهُوَ القَتْلُ، وَحَتَّى يَكْثُرَ فِيكُمُ المَالُ فَيَفِيضَ حَتَّى يُهِمَّ رَبَّ المَالِ مَنْ يَقْبَلُ صَدَقَتَهُ، وَحَتَّى يَعْرِضَهُ عَلَيْهِ، فَيَقُولَ الَّذِي يَعْرِضُهُ عَلَيْهِ: لاَ أَرَبَ لِي بِهِ، وَحَتَّى يَتَطَاوَلَ النَّاسُ فِي البُنْيَانِ، وَحَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ فَيَقُولُ: يَا لَيْتَنِي مَكَانَهُ، وَحَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَإِذَا طَلَعَتْ وَرَآهَا النَّاسُ - يَعْنِي آمَنُوا - أَجْمَعُونَ، فَذَلِكَ حِينَ لاَ يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ، أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا۔(بخاری:7121) ۔ فَقَالَ: يَا سَعْدِيُّ، سَأَلَتْنِي عَمَّا سَأَلْتُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لِلسَّاعَةِ مِنْ عِلْمٍ تُعْرَفُ بِهِ السَّاعَةُ؟ فَقَالَ: «نَعَمْ، يَا ابْنَ مَسْعُودٍ، إِنَّ لِلسَّاعَةِ أَعْلَامًا، وَإِنَّ لِلسَّاعَةِ أَشْرَاطًا، أَلَا، وَإِنَّ مِنْ أَعْلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يَكُونَ الْوَلَدُ غَيْظًا، وَأَنْ يَكُونَ الْمَطَرُ قَيْظًا، وَأَنْ يَفِيضَ الْأَشْرَافُ فَيْضًا. يَا ابْنَ مَسْعُودٍ، إِنَّ مِنْ أَعْلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يُؤْتَمَنَ الْخَائِنُ، وَأَنْ يُخَوَّنَ الْأَمِينُ. يَا ابْنَ مَسْعُودٍ، إِنَّ مِنْ