ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
مشتاق ہوتے ہیں۔ تو اﷲ کی رضا کو مقدم کرکے گویا جنت اﷲ پر فدا کردی اور دوزخ کیسے فدا کی؟ پہلے مانگا اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَالنَّارِ؎ اے اﷲ میں آپ کی ناراضگی سے ڈرتا ہوں اور جہنم سے بھی، تو ناراضگی کو پہلے فرمایا اس لیے کہ اﷲ کے عاشقوں کے نزدیک اﷲ کا ناراض ہونا جہنم سے اشد ہے۔ اﷲ کے عاشق گناہ اس لیے نہیں کرتےکہ ہمارا اﷲ ناراض ہوجائے گا۔ ناراضگی کا خوف ان پر غالب رہتا ہے۔ جہنم کاسبب تو اﷲ کی ناراضگی ہے۔ اگراللہ ناراض نہ ہو تو جہنم کیا کرے گی۔ اس لیے وہ جہنم سے ڈر کر گناہ نہیں چھوڑتے اﷲ سے ڈر کر چھوڑتے ہیں۔ اور اﷲ کی ناراضگی سے ڈرکرگناہ نہ کرنا یہ کمالِ عشق ہے۔ یہاں بھی اﷲ کی ناراضگی اورجہنم کے درمیان واؤ عاطفہ داخل ہے لہٰذا یہاں بھی ثابت ہوا کہ اﷲ کی ناراضگی میں اور جہنم میں مغایرت ہے اور سَخَطِکَ کی تقدیم بتارہی ہے کہ اﷲ کی ناراضگی جہنم سے اشد ہے کہ سبب ہے دخولِ جہنم کا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اﷲ کا شوق اور اس کا عشق جنت سے زیادہ ہو کیوں کہ وہ خالقِ جنت ہے اور دوزخ سے زیادہ اﷲ سے ڈرو کہ اﷲ خالقِ دوزخ ہے۔ تو ہر کام کو اﷲ کی رضا کے لیے کرنا اور جنت کو درجۂثانوی سمجھنا اور اﷲ کی ناراضگی سے زیادہ ڈرنا اور جہنم کو درجۂثانوی سمجھنا یہ ہے کہ اس نے اﷲ پر دونوں جہاں کو فدا کردیا۔ تو صدیق کی تین تعریفیں آپ نے سنیں، اب چوتھی تعریف سنو جو اﷲ نے اس فقیر کو عطا فرمائی۔ اﷲ جس کو دیتا ہے مبدأ فیاض سے دیتا ہے۔ جو اﷲ علامہ آلوسی کو دے سکتا ہے وہ اختر کو نہیں دے سکتا؟ جس مبدأ فیاض سے علامہ آلوسی کو عطا ہوئی اسی مبدأ فیاض سے اگر کسی بندۂ حقیر کو بھی عطا کردے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ وہ تعریف یہ ہے کہ صدیق وہ ہے جس کی ہرسانس اﷲ کی مرضی کے مطابق گزرے اور ایک سانس بھی اﷲ کی ناراضگی میں مشغول نہ ہو۔ اس کی عربی بھی بن گئی: اَلَّذِیْ یَبْذُلُ الْاَنْفَاسَ کُلَّھَا فِیْ رِضَا مَحْبُوْبِہٖ تَعَالٰی شَانُہٗ وَ لَا یَشْتَغِلُ نَفَسًا وَّاحِدًا فِیْ عِصْیَانِ رَبِّہٖ ------------------------------