ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
جائز نہیں ہے، جہاں ہر طرف میگنٹ (مقناطیس) لگے ہوں وہاں اَٹھنّی بیٹھ کر دعا کرے کہ یااللہ میں نہ کھنچوں تو دعا مانگنے کے باوجود میگنٹ کھینچ لے گا۔ پہلے بھاگو، بھاگنے کا حکم بھی تو اللہ ہی کا ہے کہ نامناسب موقع سے بھاگو، وہاں بھاگنا عبادت ہے، بھاگنا فرض ہے، بھاگنا مرضیٔ الٰہی ہے، منشاء الٰہی ہے کہ تیزی سے بھاگو، ورنہ حسن کے میگنٹ تمہیں کھینچ لیں گے، میگنٹ بھی تو اللہ ہی کا ہے، انہوں نے حسن کے میگنٹ لگا رکھے ہیں اور بھاگنے کا حکم بھی وہی دے رہے ہیں لہٰذا ان کے حکم پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ پس جہاں موقع فرار ہو وہاں سے فرار واجب ہے، قرار جائز نہیں ہے خواہ بصورتِ دعا ہو، فرار کے وقت بھاگتے ہوئے جو کچھ کہہ سکو کہ یا اللہ! مدد فرما، یہ صحیح ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام بھاگے تھے، بھاگنے سے تالے ٹوٹے ہیں، اللہ نے مدد کی اور بھاگنے کا انعام مل گیا، تالے خود بخود کھل گئے۔ پس جو انبیاء علیہم السلام کا عمل ہے اس کی نقل امت پر واجب ہے، یہ سبق بہت ضروری ہے آج ضروری سبق دیے گئے ہیں۔ حضرت والا نے مولانا منصور صاحب سے فرمایاکہ اس کو بھی بیان کردیجیے۔ مولانا نے انگریزی میں ترجمہ فرمایا۔ پھر فرمایا کہ حسن میں بھی کشش ہے اورعشق میں بھی کشش ہے، دونوں پاس رہیں گے تو بچ نہیں سکتے ،ایک دوسرے سے لپٹ جائیں گے اس لیے فرار واجب ہے کہ محاذات سے الگ ہوجاؤتو میگنٹ کا تعلق ختم ہوجائے گا، جب آمنے سامنے نہ رہیں گے،دُور رہیں گے تو میگنٹ کیا کرے گا؟دُور رہنے سے اس کے دائرۂ کشش میں نہ آئیں گے اور میگنٹ کچھ نہ کر سکے گا، اٹھنی میگنٹ کے سامنے رہے گی تو ناچتی رہے گی، میگنٹ کی طرف کھنچتی رہے گی اور جب اس کے محاذات سے ہٹ جائے گی تو اس کے اثر سے بچ جائے گی اسی لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے میگنٹ کے محاذات سے حضرت یوسف علیہ السلام کو بھگادیا۔ اس لیے بھاگنا فرض ہے، چاہے بھاگتے ہوئے دعا کرتے رہولیکن وہاں دعا کے لیے بھی رُکنا جائز نہیں۔ قدم فرار کے مضبوط رہیں، اگر قدم فرار کے مضبوط نہ ہوئے تو میگنٹ غالب ہوجائے گا، فرار اختیار کرنا واجب ہے، جو لوگ گناہ میں مبتلا ہوتے ہیں ان کا فرار کمزور ہوتا ہے، اگر ہمت کرکے بھاگ جائیں تو میگنٹ کیا کرے گا؟ لہٰذا اس کو یاد رکھو کہ گناہ کے موقع سے فرار واجب ہے، اس وقت نہ بھاگنا اور آنسو بہانا، رونا، دھونا