ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
ایک لڑکی نے ایک زیور بنایا جس کو جھلنی کہتے ہیں، ناک میں جھولتی رہتی ہے۔ اس لیے اس کا نام ہی جھلنی رکھ دیا تو محلہ کی لڑکیوں نے اس کی بہت تعریف کی کہ بہن! تم بہت اچھی معلو م ہوتی ہو۔ تو وہ رونے لگی، سہیلیوں نے کہا کیوں روتی ہو؟ہماری تعریف کی تم نے یہ قدر کی، ہماری تعریف پر تو تم کو شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا۔ اس نے کہا کہ کیا شکریہ ادا کروں میں نے یہ جھلنی اپنی طبیعت سے بنوائی ہے، معلوم نہیں کہ شوہر کو بھلی معلوم ہو کہ بُری معلوم ہو۔ شوہر جب تعریف کرے گا تب میں خوشی محسوس کروں گی، تمہاری تعریفوں سے میرا کیا بھلا ہوگا، جس کے ساتھ زند گی گزارنی ہے وہ اگر خوش ہو گیا تو میرا کام بنے گا۔ ایسے ہی جب اللہ بندہ کی تعریف کردے تب ہماری خوشی کا دن ہوگا۔ ورنہ اگر ساری مخلوق تعریف کرے تو اللہ کا شکر تو ادا کرے کہ اس نے ستاری فرمائی،پردہ پوشی کی،مخلوق میں بڑا دکھایا،یہ اللہ کا کر م ہے۔ شکر گزار رہو، ناز نہ کرو،مخلوق میں تعریف ہوتوحَسَنَۃً کی تفسیر ہے،رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً؎ حَسَنَۃً کی دس تفسیریں ہیں،ان میں سے ایک ثناء الخلق ہے۔؎ پس جب مخلوق تعریف کرے تو سن کر اللہ کا شکر ادا کرے کہ اے اللہ!تو نے میرے عیبوں کو چھپا دیا اور بھلائیاں ظاہر کردیں اور لوگوں کی نگاہوں میں میری تقریر یا تحریر کو اچھا دِکھا دیا۔ ایسے وقت میں شکر ادا کرنے سے تکبر سے بچ جائے گا۔ کیوں کہ تکبر سببِ بُعد ہے،اللہ سے دوری کا سبب ہے۔ اور شکر سببِ قُرب ہے،اللہ سے قرب کا سبب ہے اور سببِ قرب اور سببِ بُعد دونوں میں تضاد ہے اور اجتماعِ ضدین محال ہے۔ اور یہ ہمار ا ٹیلی فونک خطا ب ہے جو کراچی سے ایک بار ساؤتھ افریقہ کیا گیا تھا ایک عالم کے جواب میں۔ پس جب تشکر کی کیفیت ہوگی کبھی تکبر پاس نہیں پھٹکے گا کیوں کہ تشکر کبھی سببِ بُعد نہیں ہوسکتا۔ تکبر اللہ کی رحمت سے دور کرتا ہے،متکبر کو اللہ کی طرف دھیان نہیں رہتا۔ اپنے اوپر نظر ہوتی ہے کہ یہ میرا کمال ہے اور تشکر میں اپنے کمالات کی نسبت کا ------------------------------