ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
اس کا چوگنا اور آٹھ گنا مجمع واہ واہ کرے تو کچھ فائدہ نہیں ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک قصہ بیان کیا کہ دیہاتی لوگ جب کسی چیز کے متعلق پوچھتے ہیں تو لاٹھی سے اس چیز پر ٹھونگا مار کر پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ہے؟ یہ کیا بیچ رہے ہو؟ تو ایک دیہاتی نے ایک چوڑی بیچنے والے کے تھیلے پر لاٹھی سے ٹھونگا مار کر پوچھا کہ یہ کیا ہے تو اس کی آدھی چوڑیاں ٹوٹ گئیں۔ چوڑی والے نے کہا کہ کیا بتاؤں یہ کیا ہے؟ لاٹھی سے ایک ٹھونگا اور مارو تو یہ کچھ نہیں ہے۔ تو اپنے اعمال کے بارے میں صوفیاء اور بزرگانِ دین یہ تصور کرتے ہیں کہ قیامت کے دن معلوم نہیں یہ قبول ہیں یا نہیں۔ ابھی قبولیت کی قطعی طور پر آپ کو کیسے امید ہوگئی؟ اس لیے فرمایا: یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ ؎ اللہ والے اُس دن سے ڈرتے ہیں جس دن قلب اور آنکھیں لوٹ پوٹ ہوجائیں گی۔ بھائی! اکڑے تو وہ جس کو اپنے اعمال کی قبولیت کا یقین ہو۔ ابھی جب مرے نہیں تو اللہ کے فیصلہ کا علم کیسے ہو گیا ؟اپنے منہ میاں مٹھو بن رہے ہو، اپنے منہ سے خود ہی تعریف کر رہے ہو ، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا فیصلہ ہوگا؟ اس کا خوف کرو کہ نامعلوم عمل قبول بھی ہے یا نہیں ؟اگر قبول ہے تو سبحان اللہ اگر قبول نہیں تو لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّابِاللہِ اللہ کی لعنت ہے ایسے عمل پر، لہٰذا اس وقت جو لوگ کتاب پڑھیں یا تقریر کریں وہ اس کا مراقبہ کریں کہ معلوم نہیں کہ میر ا عمل قبول بھی ہے یا نہیں؟ ورنہ چند بندے چند بندوں کی تعریف کر رہے ہیں، چاہے ایک بندہ تعریف کرے یا ایک لاکھ بندے تعریف کریں تو میزانیہ بندہ ہی آئے گا کیوں کہ بندوں کا مجموعہ بندہ ہی ہوتا ہے۔ بندہ کی قیمت مالک لگا تا ہے اس لیےیہ سوچو کہ ہماری تقریر کی قیمت کیا ہوگی یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ اس لیے نہ اپنے منہ سے میاں مٹھو بنو، نہ لوگو ں کی تعریف میں آؤ کیوں کہ لوگوں کی تعریف میں آنا اور اپنے کو تعریف کا مستحق سمجھنا حماقت اور بے وقوفی ہے ۔ ہمار اجن سے پالا پڑے گا یعنی اللہ تعالیٰ جب پاس کردیں گے اور اللہ راضی ہوجائیں تب سمجھو کہ اب پاس ہو گئے۔ ------------------------------