ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
سب کی عشرت دل سے باہر ہوگئی میری حسرت میرے دل میں ہے سدا تو فرمایا کہ یہ انداز بھی نرالا ہے۔ ایک شاعر نے کہا ؎ مرا معشوق دنیا کے حسینوں سے نرالا ہے فقط اک آنکھ کانی ہے فقط اک رنگ کالا ہے کہتے ہیں کہ ہماری سب تمنا پوری ہوگئی یعنی عشرت دل سے باہر ہوگئی اور حسرت دل کی دل میں رہتی ہے۔ پس میرے کام کی چیز میری حسرت ہے۔ کیوں کہ میرے دل کے اندر رہتی ہے، دل کی دل میں رہتی ہے اور عشرت تو سب پوری ہوکر دل سے باہر ہوگئی تو کون باوفا ہے حسرت یا عشرت؟ تو حسرت کو ہم کیوں نہ پیار کریں جو ہمارے دل میں رہتی ہے۔ بولو نرالا مضمون ہے؟ پھر قاری صاحب نے حضرت والا کا یہ شعر پڑھا ؎ عشرتیں تو دشمنوں کو بھی ملیں عاشقوں کو اپنا غم بخشا سدا تو حضرت نے اس کی یہ تشریح فرمائی کہ دشمنوں کو، کافروں کو اﷲ نے عشرتیں دی ہیں کہ نہیں؟ مسلمانوں سے زیادہ دی ہیں۔ خوبصورت بیویاں، خوبصورت مکان، بنگلے، کاروبار اور یہ سب ان کے ٹھاٹ باٹ ہیں مگر ان کے ہارٹ میں اطمینان نہیں ہے اور ہم لوگوں کا کیا ہے؟ اطمینانِ ہارٹ ہے، ہاٹ پاٹ ہے اور فقیری میں ٹھاٹ باٹ ہے اور دشمنوں کا ہارٹ چوں کہ بے اطمینان ہے اس لیے وہ اپنے ٹھاٹ باٹ کے باوجود ایئر کنڈیشنوں میں خود کشی کررہے ہیں۔ اگلے دو شعروں میں میں نے یہی مضمون بیان کیا ہے ؎ دشمنوں کو عیشِ آب و گِل دیا دوستوں کو اپنا دردِ دِل دیا اُن کو ساحل پر بھی طغیانی ملی ہم کو طوفانوں میں بھی ساحل دیا