ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡیَہُوۡدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوۡلِیَآءَ ؎ اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست مت بناؤ۔ علامہ آلوسی السید محمود بغدادی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی دوستی خطرہ سے خالی نہیں ہے۔ اگر تم نے ان کو دوست بنایا تو یہ اِرتداد کا سبب ہوگا، یہود و نصاریٰ کی دوستی اِرتداد کا سبب بنے گی اور آخر میں فرمایا: مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے دین سے پھر گیا تواس کی پرواہ نہ کرو، میں مستغنی ہوں، میری صفت اَلصَّمَدُ ہے۔ اَلصَّمَدُ کی تفسیرحضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمائی ہے جس کو علامہ آلوسی نےنقل کیا ہے کہ اَلصَّمَدُ کے معنیٰ ہیں: اَلْمُسْتَغْنِیْ عَنْ کُلِّ اَحَدٍ وَّ الْمُحْتَاجُ اِلَیْہِ کُلُّ اَحَدٍ ؎ صمد اسے کہتے ہیں جو سارے عالم سے مستغنی ہو اور سارا عالم اس کا محتاج ہو، تو جو لوگ مرتد ہوگئے ہیں ان کی فکر نہ کرو پھر مسلمانوں کی تسلی کے لیے فرمایا کہ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍمیں عن قریب ایک ایسی قوم پیدا کروں گا یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤجن سے اﷲ محبت کرے گا اوروہ اﷲ سے محبت کریں گے۔ روح المعانی میں اس آیت کی تفسیر بالفاظِ دیگر یہ ہے: قَدَّمَ اللہُ تَعَالٰی مَحَبَّتَہٗ عَلٰی مَحَبَّۃِ عِبَادِہٖ لِیَعْلَمُوْا اَنَّ مَحَبَّتَھُمْ بِفَیْضَانِ مَحَبَّۃِ رَبِّہِمْ ؎ اﷲ تعالیٰ نے اپنی محبت کو مقدم فرمایا ہے بندوں کی محبت پر تاکہ بندے جان لیں کہ اُن کو اﷲ سے جو محبت ہے وہ اﷲ ہی کی محبت کے فیضان کا عکس ہے۔ یُحِبُّھُمْ کی ضمیر اﷲ کی طرف جارہی ہے یعنی اﷲتعالیٰ جو قوم پیدا کریں گے اُس سے محبت کریں گے اور وہ لوگ ------------------------------